بلاگ

محسن شاعر خدائے سخن

میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لیکے کہاں سامنے ہوا کے چلے

میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

مرزادبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

یہی شعر ان کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔

میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close