غزہ میں ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے کوشاں فنکار
ایک دیوانہ ایسا بھی ہے جو اپنی جان بچا کر بھاگنے کے بجائے اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ناصر جلدہ نامی 57 سالہ یہ فنکار عیسائی مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا عزم ہے کہ وہ اپنے مذہب کو آرٹ کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔
ناصر کا اسٹوڈیو پانچویں صدی میں تعمیر کیے گئے ایک چرچ کے نزدیک ہے جہاں وہ اپنا وقت مختلف شاہکار تخلیق کرنے میں صرف کرتے ہیں۔
وہ اب تک مختلف اقسام کے مجسمے، پتھروں پر کندہ کیے گئے مختلف علامتی مناظر (جو انجیل میں بیان کیے گئے ہیں) اور حضرت عیسیؑ اور بی بی مریم کی شبیہوں کو تراش چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’میں چاہتا ہوں کہ یہ مذہب اور ثقافت الفاظ کی صورت کتابوں میں نہ رہے، بلکہ مجسم ہو کر لوگوں کے سامنے آئیں‘
غزہ کے کشیدہ حالات کی وجہ سے عیسائیوں کی اکثریت یہاں سے ہجرت کر چکی ہے اور اب غزہ میں صرف 1200 عیسائی بچے ہیں جن میں سے ایک ناصر جلدہ بھی ہیں جو عیسائی ثقافتی ورثے کو بچانے میں مصروف ہیں۔
ناصر کے اسٹوڈیو میں دیواروں پر مختلف تصاویر آویزاں ہیں۔ کمرے میں ایک 150 سالہ قدیم پیانو بھی رکھا ہے۔
تخلیقی کام کے دوران وہ روم کی قدیم بازنطینی سلطنت کے دور کی موسیقی سنتے ہیں جو ان کے تراش کردہ مجسموں اور شبیہوں کے ساتھ مل کر دیکھنے والوں کو صدیوں پیچھے لے جاتی ہے اور ان پر ایک سحر طاری کردیتی ہے۔
وہ گزشتہ 35 سال سے مختلف آرٹ کے شاہکار تخلیق کر چکے ہیں لیکن انہوں نے آج تک اپنے فن کی کوئی نمائش نہیں کی، نہ ہی اسے فروخت کیا۔ البتہ وہ اپنے تراشیدہ مجسمے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو ان کی سالگراہوں اور شادیوں کے موقعوں پر بطور تحفہ دے دیتے ہیں۔
تاہم اب ان کا اراداہ ہے کہ وہ جلد ہی ایک نمائش منعقد کریں گے۔
ناصر مانتے ہیں کہ غزہ کے معاشی حالات دگرگوں ہیں لیکن ان کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ’میرے تعلقات اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بہترین ہیں۔ میں خود کو یہاں اجنبی محسوس نہیں کرتا‘۔
ایک جنگ زدہ علاقہ ہونے کے باوجود ناصر اسے خوبصورت مانتے ہیں اور ان کا ہمیشہ یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔
یاد رہے کہ جنگ کا شکار علاقہ ہونے کے باوجود یہاں آباد تمام عیسائیوں کو مسلمانوں کی جانب سے ہر قسم کا تحفظ لاحق ہے جس میں اہم کردار غزہ میں حکمران جماعت حماس کا ہے۔ حماس کے کئی لیڈر غزہ میں واقع تینوں عیسائی عبادت گاہوں کا باقاعدگی سے دورہ بھی کرتے ہیں۔