برطانیہ میں بے گھر لوگ
یہاں ایک دھات کے تختے پر دوسرے بیالیس افراد کے ساتھ سوتے ہیں۔ مرد سارے ایک ٹائیلٹ استعمال کرتے ہیں اور خواتین ساری دوسرا ٹائلٹ استعمال کرتی ہیں۔دیکھا جاے تو بے گھر لوگوں میں یہ کافی خوشحال لوگ ہیں۔پچھلے ماہ ایک کمپنی نے اندازہ لگایا کہ لندن میں ایک لاکھ ستر ہزار لوگ بے گھر ہیں۔ان میں آدھے لوگ جاب بھی کرتے ہیں۔
عام طور پر یہ سوچا جاتا ہے کہ بے گھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو نشہ کرتے ہوں۔ لیکن یہ تو ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جو لندن انڈر گراونڈ میں کام کرتا تھا۔جاب چھوٹ گئی۔ ساری سیونگز خرچ ہوگئیں۔ اب وہ ایک کلب میں کام کرتا ہے۔ اور ایک عام سی تنخواہ لیتا ہے۔ یہ تنخواہ کافی نہیں ہے۔ چھت کے نیچے پہنچنے سے پہلے وہ گلیوں میں گھومتا رہتا ہے۔ جب ایسٹرن سٹیشن تین بجے کھلتا ہے ۔ وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھتا ہے اور کچھ گھنٹوں کے لیے سستاتا ہے۔ پریشانی اور تکلیف میں نیند کہاں آتی ہے؟ وہ کل یوتھ سنٹر جاے گا۔ مما فون کرے گی۔ میرا دل چاہتا ہے امی کو بتادوں روتے ہوے کہ میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ لیکن میری ممی کا دل ٹوٹ جاے گا۔ لیام کا چہرہ یہ بتاتے ہوے سرخ ہوچلا تھا۔ آنکھ ملانا مشکل ہورہا تھا۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوے اسکے دکھ اور خفگی میں کمی آئی ہوگی۔ اس کے بعد وہ اپنی جاب پر چلا گیا۔ لگتا ہے برطانیہ میں غریب ہونا کسی جرم سے کم نہیں۔ پبلک اور پرائیویٹ سکیٹر دونوں اسے جرم ہی سمجھتے ہیںَِ۔
نکولا نے بتایا اسکو کراے دار خاتون نے گھر سے نکال دیا۔ نکولا گلی میں سونے کی بجاے پولیس سٹیشن چلی گئی۔ بتاتی ہیں مجھے جب بھی نیند آتی تھی اور اونگنے لگتی تھی تو پولیس والا جگا دیتا تھا۔ میں کونسل سے فنڈز مانگنے گئی تو کونسل آفیسر نے کہا تم بے گھر تو نہیں لگتی ہو۔نکولا ایک دکان میں کام کرتی ہے۔ دوسال کے بعد بھی اس کا کنڑیکٹ عارضی ہے۔جب چاہا بلا لیا۔ صبح چھ بجے شفٹ شروع ہوتی ہے۔ اور تین بجے اٹھنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ کرسمس پر بھی بے گھر رہیں گے۔ اور مہینوں سے پر سکون نیند نہیں سو سکے ہیں۔
روٹی کپڑا او ر مکان کس کا نعرہ ہے؟ ایک ولفیئر سٹیٹ کا نعرہ ہے۔ گورے غریب ہوتے جارہے ہیں انکے نعرے میں روٹی اور کپڑا رہ گیا ہے۔ مکان غائب ہوتا جا رہا ہے۔ لندن آٹھ ملین کی آبادی کا شہر ہے۔ انگریزوں نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ آج بھی دنیا انگریزوں کی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ انگریزوں کی زبان قابلیت سمجھی جاتی ہے۔ انگریزوں پر پرانے وقت نہیں رہے تو یہ وقت بھی نہیں رہے گا۔
آپکو ناروے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ناروے نارتھ پول کے قریب ایک خوبصورت اور بہت ٹھنڈا ملک ہے۔ جب میں پہلی مرتبہ ناروے آیا تو پہلا موسم سرما آتے ہی میں نے یہ سوچا کہ اس ملک کے باشندے کب سے اس ملک سے آباد ہیں۔ اور کیسے بسر اوقات کرتے رہے ہیں؟ اس قدر شدید سردی اور اندھیرا۔ ناروے کے نارتھ میں چھ ماہ مکمل رات رہتی ہے اور چھ ماہ مکمل دن رہتا ہے۔ ذرا سوچیے پورے چھ ماہ رات کا اندھیرا اور ساتھ منفی بیس یا تیس درجہء حرارت کے ساتھ کوئی آبادی کیسے زندہ رہ سکتی ہے؟ لیکن اللہ تعالی نے ہر خطے اور ملک کی آب و ہوا اور موسم کے مطابق وہاں کچھ ایسی سہولتیں اور نعمتیں عطا کررکھی ہیں کہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق زندہ رہ سکے۔ ناروے ساحل سمندر کی دولت سے مالا مال ہے۔ اللہ تعالی نے ان غیر ترقی یافتہ اور تاریک اور سرد گلیشیر ز میں ان لوگوں کو زندہ رہنے کی تدابیر سکھا رکھی تھیں۔
جب بجلی گیس اور تیل کی سہولت نہیں تھی۔ تو منفی تیس پینتیس سنٹی گریڈ درجہ حرارت اور مکمل تاریکی اور برف سے ڈھکے ٹیلوں اور پہاڑوں میں زندہ رہنا انہیں لوگوں کا کمال تھا۔اگرچہ بہت لوگ اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ چلے گیے تھے لیکن ملک خالی نہیں ہوا۔ کچھ لوگ اپنے ملک میں جمے رہے۔ محنت کرتے رہے۔ تعلیم اور تدریس پر کاوش کرتے رہے۔نظام بنانے کی کوشش کرتے رہے۔جب ٹیکنالوجی آگئی۔ تو انہوں نے ٹیکنالوجی سے زبردست فائدہ اٹھایا۔ بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے چھوٹے لاتعداد منصوبے بناے۔ سمندر میں ہیلی کاپٹر پر دو گھنٹے دور کئی کلومیٹر کی گہرائی سے تیل اور گیس نکالنا شروع کیا۔ ویسا یہ بات علم اور ٹیکنالوجی سے ہی ممکن ہے۔ ورنہ بغیر علم اور ٹیکنالوجی کے شاید ہم گھر کے صحن میں موجود پانی کے تالاب میں گرا ہوا بچے کا کھلونا نہیں نکال سکتے۔اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ انسان کو ذہانت اور عقل سے نوازا ہے۔ یہ چیز اسے باقی چرند پرند سے ممتاز کرتی ہے۔اور ان پر غالب کرتی ہے۔
ان لوگوں نے اپنے ملک کو اتنا اچھا اور معاشی طور پر مستحکم بنالیا کہ دنیا کے لیے مثال بن گیا ہے۔ رہنے کے لحاظ سے دنیا کا بہترین ملک ہے۔ آج بھی اندھیرا ہے اور شدید سردی ہے۔ لیکن یہ اندھیرا اور شدید سردی کسی کام میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کوئی زیادہ لوگ بھی نہیں ہیں اس ملک میں۔ صرف پانچ ملین لوگ ہیں۔ آپ یقین جانیے ہمارا ملک رہنے کے لحاظ سے اللہ نے بہت خوبصورت بنایا ہے۔ ہمیں تو اس کا بہت احساس ہے۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔