میں بڑا ہو کر اپنے والد سے بدلہ لوں گا”
میں بڑا ہو کر ابو سے اس سب کا بدلہ لوں گا!” میں جب بھی کبھی بچوں پر تشدد کی کوئی خبر سنتا یا پڑھتا ہوں تو میرے دماغ میں میرے بچپن کے ایک دوست کے یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں جو اُس نے اپنے والد کے ہاتھوں شدید تشدد کے بعد مجھے کہے تھے۔
یہ بات آج سے تقریباً 20 برس پرانی ہے جب میں اور میرا دوست صرف 9 یا 10 برس کے رہے ہوں گے۔ اُس وقت آج کی طرح برق رفتار رابطہ کاری کا دور نہ تھا کہ میڈیا اورانٹرنیٹ وغیرہ یا "ماحول” کو اِس سوچ کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ الفاظ ایک بچے کے دِلی جذبات کے ترجمان تھے۔
اس کے منہ سے اس قسم کے ترش الفاظ سن کر ایسا لگا تھا کہ جیسے میرے سر پر کسی نے ہتھوڑا دے مارا ہو کیونکہ اُس وقت والدین کے سامنے کوئی بات کرنے بھی جرات بھی نہ کرتا تھا، چہ جائیکہ والد پر ہاتھ اٹھانے جیسا انتہائی قدم اُٹھانا! لیکن یہ بات اُس دوست نے کیوں کہی تھی؟ وہ وجہ اُس کے والد صاحب کا رویہ تھا۔
میرے دوست کے والد ایک انتہائی سخت طبع شخص تھے۔ وہ جب گھر آتے تو سارے بچے، حتیٰ کہ میرے دوست کی والدہ بھی، حقیقتاً مختلف کونوں میں چھپنے کی کوشش کرتے۔ میرا دوست بھائیوں میں بڑا تھا۔ روزانہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا، جیسے چپل وہاں سے یہاں کس نے رکھی؟ پیچ کس کیوں نہیں مل رہا؟ تمہارے چہرے پر بال پوائنٹ سے لائن کیوں لگی ہوئی ہے؟
غرضیکہ مارنے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی تھی اور نہ صرف ایک بچے کو مارنے کی بلکہ کئی دفعہ ایک ہی بات پر تمام بچوں کو بھی مار پڑتی۔ نہ صرف بچوں کو، بلکہ میرے دوست کی والدہ بیچاری بھی اکثر بچوں کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنتیں۔
ایسا بھی نہیں کہ وہ صاحب ذہنی مریض تھے۔ بالکل نہیں، بلکہ وہ اپنی جائے ملازمت اور محلے میں ایک سمجھدار اور ذہین انسان کے طور پر خاصا نام رکھتے تھے، بس اُن میں "صرف ایک” خامی تھی کہ وہ بیوی بچوں پر شدید تشدد کرتے تھے۔ اُن کی اِس عادت کو کوئی بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بیوی بچوں پر جابرانہ حاکمیت کرنے والے حضرات کو ہی تو "مکمل مرد” تصور کیا جاتا ہے۔ کہیں تو تشدد ہونے کی واحد وجہ "بیٹی” ہونا بھی ہوتا ہے۔
بہرحال مار پیٹ کا یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک کہ وہ دوست اپنی زندگی کے 25 برس عبور کر کے "صاحبِ روزگار” نہ ہو گیا۔ اب بھی تشدد تھما نہیں تھا ہاں اب جوتوں، ڈنڈوں سے ہونے والے تشدد کی جگہ تھپڑوں نے لے لی تھی۔
مشہور محاورہ ہے کہ بچے من کے سچے۔ بچوں کی محبت پائیدار اور نفرت عارضی ہوتی ہے۔ کیونکہ انسان کی فطرت محبت کرنا ہے جبکہ نفرت وہ آہستہ آہستہ اپنے گردو پیش سے سیکھتا ہے۔
آپ کسی طویل سفر میں ہوں اور آپ کی سیٹ کے ساتھ والے شخص کے ساتھ ایک دو بچے ہوں تو یا تو وہ بچے شروع ہی سے آپ سے بے تکلف ہو جائیں گے ورنہ ایک دو گھنٹے تک اُن کی جھجک اُتر جائے گی اور وہ آپ کے ساتھ ہنسنا کھیلنا شروع کر دیں گے، چاہے اُن کے والدین اُن کو منع کرتے رہیں۔
تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اتنے محبت کرنے والے پھول سے بچوں کے نفاست اور نزاکت سے بھرپور بچپن کی پرواہ نہیں کرتے اور تشدد کا شکار بناتے ہیں۔ جسمانی طور پر بچے بڑے ہوتے رہتے ہیں لیکن اُن کا دل اور دماغ جانے ہم کیوں چھوٹے سے چھوٹا کرتے رہتے ہیں۔
اخبار میں کسی بدبخت کے والد کو گھر سے نکالنے سے لے کر جان سے مار دینے کی خبروں پر بیٹوں پر لعن طعن کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایسا انتہائی قدم اُٹھانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور اُن کا حل کیا ہونا چاہیے؟
ہم تو اُس ذاتِ اقدس رسولِ اکرم ﷺ کو ماننے والے ہیں کہ جن کے پاس حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بچپن کے 10 برس گزارے اور دس برسوں میں کبھی بھی جناب رسول اللہ ﷺ نے اُن کو ڈانٹا یا جھڑکا تک نہیں۔ کیا دنیا کی بہترین امت ہونے کا دعویٰ کرنے والے اپنے نبی اکرم ﷺ کی ایسی سنتوں پر عمل نہیں کر سکتے؟
یہ کہانی صرف میرے دوست تک ہی محدود نہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ کہانی روزانہ، ہر تیسرے گھر میں یہی دہرائی جا رہی ہے۔ تعلیم، شعور اور میڈیا کی بدولت اِس شرح میں کچھ نہ کچھ کمی تو ضرور واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی یہ شرح خوفناک حد تک موجود ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ میڈیا، ذرائع ابلاغ، منبر و محراب، تعلیمی اداروں، غرضیکہ جہاں جہاں سے بھی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کرنے کا پیغام لوگوں تک پہنچ سکے، پہنچایا جانا چاہیے اور اِس لعنت سے معاشرے کو پاک کرنا چاہیے تا کہ ہمارے اگلی نسل ذہنی اور نفسیاتی طور پر ایک مضبوط نسل بنے۔