بلاگ
سید قاسم علی شاہ کی مخالفت کیوں؟
سید قاسم علی شاہ پر واصف علی واصف، اشفاق احمد ، بلھے شاہ اور سرفراز شاہ صاحب جیسے لوگوں کا گہرا اثر ہے۔
سید قاسم علی شاہ کی مخالفت کیوں؟
تحریر: عامر خاکوانی
سید قاسم علی شاہ معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر،لکھاری اور استاد ہیں۔ پچھلے چند
برسوں میں قاسم علی شاہ ایک بڑے برینڈ بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی تقاریر کی ویڈیوز بہت ہٹ بلکہ سپر ہٹ ہوئی ہیں، ان کا فیس بک پیج کئی ملین پر پہنچ گیا، درجنوں ویڈیو کلپس ملینز ویوز لے چکی ہیں۔
قاسم علی شاہ کی کتابوں کے کئی ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں،ان کے کالم، مضامین کئی اخبارات کے میگزینز میں شائع ہورہے ہیں۔ وہ کارپوریٹ سیکٹر کے اہم ٹرینر اور سپیکر ہیں۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے سٹاف کی ان سے ٹریننگ کراتی ہیں۔
سید قاسم علی شاہ کی اس غیر معمولی مقبولیت اور پزیرائی کی وجہ سے ہی ان کے خلاف خواہ مخواہ کی کمپین چلنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کی کوئی وجہ اور دلیل نہیں ہے۔ ایک تو فیس بک پر مویٹویشنل سپیکرز کے خلاف بولنے کا فیشن سا چل نکلا ہے، کچھ دوست بڑے زور شور سے یہ تنقید کرتے ہیں اور بعض تو بلا سوچے سمجھے ہی یہی فقرے دہراتے ہیں۔ اس تنقید کی زد میں عارف انیس ملک بھی آ جاتے ہیں۔ عارف انیس ملک پر تنقید بھی بلاجواز اور بلاوجہ ہے، مگر سردست میں قاسم علی شاہ کی بات کرتا ہوں۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سید قاسم علی شاہ نے اپنی عملی زندگی میں بہت محنت کی ہے ۔ وہ گراس روٹ لیول سے اوپر آئے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے، مجھے یاد ہے کہ انیس سال پہلے ایکسپریس اخبار پنجاب اور کے پی سے شروع ہوا تو میں اس کا میگزین کے شعبے کا سربراہ تھا۔ ان دنوں قاسم علی شاہ گلشن راوی لاہور میں ایک اکیڈمی چلاتے تھے ، انہوں نے ایکسپریس اخبار کے رنگین صفحات کے لئے آرٹیکل لکھنا شروع کئے۔ ہمارا ہفتہ وار ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن ایڈیشن تھا، اس میں کوارٹر پیج پر ریگولر ان کے مضامین چھپتے رہے۔ قاسم شاہ کی اکیڈمی خاصی بڑی تھی اور اس میں ہزار سے زائد طلبہ پڑھتے تھے۔ ان دنوں بھی انہیں موٹیویشنل مواد پڑھنے اور اس پر لکھنے میں دلچسپی تھی۔ جاوید چودھری صاھب کے انہوں نے اپنی اکیڈمی میں لیکچر بھی کرائے۔ میرے بعض کالموں کے وہ مداح تھے اور ان پر بات کرتے۔
قاسم علی شاہ کی محنت اس سے بھی پہلے کی چل رہی ہے، زندگی کو انہوں نے قریب سے دیکھا، کٹھنائیاں برداشت کیں، مگر سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ انہیں تب بھی تصوف اور صوفی دانشوروں سے بڑی دلچسپی تھی۔ واصف علی واصف کے وہ زبردست مداح تھے اور انہیں اپنا مرشد کہتے۔
وقت گزرنے کے ساتھ قاسم علی شاہ کی محںت اور کام بڑھتا گیا۔ انہوں نے آٹھ دس سال پہلے مختلف موضوعات پر اپنی ویڈیوز بنا کر نیٹ پر ڈالنا شروع کر دیں، سوشل میڈیا کو بھی اچھے طریقے سے استعمال کیا۔ خود بہت سی ٹریننگ ورکشاپس کیں، بہت کچھ سیکھا اور پھر اسے آگے منتقل کیا۔ اپنے موضوعات پر مغربی ٹرینروں کو پڑھا، سمجھا۔ ہماری فوک دانش سے جڑنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کی۔
ان کی دو عشروں کی محنت رنگ لانے لگی اور پچھلے چند برسوں میں ان کا کام چمک اٹھا۔ انہیں مواقع ملے، جنہیں اچھے سے استعمال کیا، اپنے آپ کو منوایا، اپنا ہنر دکھا کر اپنی ریڈرشپ اور آڈینس بنائی۔ یہ سب بڑے شفاف اور سامنے نظر آنے والے طریقے سے کیا۔ جو بندہ بیس پچیس سال محنت کرے، اس کے بعد اسے کامیابی ملنا قابل فہم ہے۔ اس نے اپنی کارپوریٹ ٹریننگ کا اپنا مرضی کا معاوضہ لیا، یہ اس کا حق ہے۔ وہ اپنا ہنر بیچ رہا ہے ، کارپوریٹ سیکٹر میں اس کا اچھا معاوضہ لینا اس کی مرضی ہے ، اس کا حق ہے۔
سید قاسم علی شاہ کی کامیابی کے تین چار بڑے گر ہیں۔ وہ نہایت منکسر المزاج شخص ہیں، ڈائون ٹو ارتھ۔۔ جس طرح بیس سال پہلے ہم سے ملتے تھے، ویسی عاجزی، شائستگی، احترام اور محبت سے ملتے ہیں۔ ایک بڑا سپرسٹار بننے کے باوجود قاسم علی شاہ میں معمولی سا فرق بھی نہیں آیا۔ سال پہلے میں ان کے دفتر ان کے مدعو کرنے پر گیا۔ ان کا دفتر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس بلڈنگ میں کمال درجے کے جمالیاتی ذوق اور علم دوستی جھلکتی ہے۔ جنہیں علم دوستی کا لفظ سمجھ نہیں آیا، انہیں مشورہ ہے کہ وحدت روڈ پر واقع سید قاسم علی شاہ فائونڈیشن کے دفتر کا وزٹ کر کے دیکھیں۔
مجھے یاد ہے کہ اس روز ان کے دفتر کے ایک ہال میں ٹریننگ ورکشاپ ہو رہی تھی، پچاس ساٹھ لوگ ٹریننگ لے رہے تھے۔ قاسم علی شاہ مجھے وہاں لے کر گئے، ٹرینر سے معذرت کی ، میرا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ میرے استاد ہیں، انہوں نے مجھے بیس سال پہلے اپنے اخبار میں چھپنے کا موقعہ دیا۔ سچی بات ہے مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی۔ میں ان کا استاد بالکل بھی نہیں،میری ان سے چند ایک ہی ملاقاتیں ہیں، ہاں میرے کالم پڑھ کر اگر کوئی کچھ اخذ کر لے تو وہ الگ بات ہے، رہی اخبار میں چھپنے والی بات تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ اخبارات کو فری لکھنے والے کنٹری بیوٹر کی ضرورت اور تلاش ہوتی ہے۔ الٹا ہم ان کے ممنون تھے کہ ہمیں ہر ہفتے ایک بنا بنایا آرٹیکل مل جاتا۔ قاسم علی شاہ نے مگر اپنی انکساری اور احترام کا مظاہرہ کیا۔ بہت کم لوگوں میں اتنی اخلاقی جرات ہوتی ہے کہ کسی مقام پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے ماضی کو یاد رکھا جائے۔ قاسم علی شاہ میں یہی بات ہے۔
قاسم علی شاہ بہت منظم، ڈسپلنڈ اور محنتی شخص ہے۔ اپنی زندگی ، معمولات اور کام کو اس نے عمدگی سے منظم کر رکھا ہے۔ اس کے پاس ہر ضروری کام کرنے کے لئے وقت ہے۔ کوئی واٹس ایپ میسج بھیجو ، چند لمحوں میں جواب آئے گا اور اگر کسی وجہ سے تب نہیں آیا تو پھر شام تک ضرور جواب ملے گا۔ کال کی جائے نہ لے سکے تو کال بیک ضرور کرے گا۔ یہ میں اپنی بات نہیں کر رہا، اکثر لوگ یہ بات کہتے ہیں۔
اسے اپنے پنجابی اور لوئرمڈل کلاس بیک گرائونڈ پر کوئی کمپلیکس نہیں۔ اس نے اپنے لہجے کو بھی درست کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ وہ پنجابی لیجے میں اردو بولتا اور شائد اسی انداز میں انگریزی بولتا ہوگا۔ وہ کمپلیکس فری آدمی ہے۔ اس کے دلائل سادہ اور دیسی ٹچ لئے ہوئے ہیں۔ یہ دیسی پن بھی مصنوعی نہیں ،اوریجنل ہے۔
اشفاق احمد پر بھی یہی تنقید ہوتی تھی کہ یہ اپنی گفتگو میں دیسی پن اور فوک ٹچ دانستہ ڈالتے ہیں۔ یہ درست نہیں ، اشفاق صاحب اوریجنل آدمی تھے۔ سید قاسم علی شاہ پر واصف علی واصف، اشفاق احمد ، بلھے شاہ اور سرفراز شاہ صاحب جیسے لوگوں کا گہرا اثر ہے۔ پریکٹیکل سوچ کے ساتھ اس میں تصوف کا گداز، فوک دانش کی مٹھاس اور خالص دیسی پن کا تڑکا ہے۔ یہ اس نے اوریجنل طریقے سے شامل کی ہیں۔ اس کی بات میں اسی لئے تاثیر پیدا ہوئی اور اسے مقبولیت ملی۔ وہ صوفی بزرگوں کا ادب کرتا اور اسے ان کی دعائیں لگی ہیں۔ یہ میرا اندازہ ہے۔
سید قاسم علی شاہ کی تیسری بڑی خوبی اچھی ٹیم بنانا اور اپنے لوگوں کے ساتھ وفا کرنا ہے۔ یہ بڑا وصف ہے۔ مجھے پتہ چلا کہ اس نے کئی طرح کے ذیلی کاروبار شروع کئے، اس کا طریقہ دلچسپ ہے۔ کسی دوست کو سپورٹ کر کے اسے پبلشنگ پر لگا دیا، اس میں سرمایہ کاری اور مکمل سپورٹ دی ،مگر اپنے لئے صرف پچیس فیصد شیئر رکھا، باقی پچھتر فی صد اس دوست کا۔ یوں وہ اس کا ملازم یا صرف پارٹنر نہیں بلکہ کاروبار کا مالک بن کر محنت کرتا ہے، کام چل نکلتا ہے، اسے پچیس فی صد کا حصہ ملتا رہتا ہے۔ اپنی ٹیم کا خیال رکھنے کی وجہ سے ہی اس کے کئی ساتھی دس پندرہ برسوں سے اس کے ساتھ ہیں۔ جو کسی وجہ سے چھوڑ گئے ، وہ بھی قاسم علی شاہ کا نام محبت سے لیتے ہیں۔ جو لوگ مل بانٹ کر کھاتے ہیں، وہ ہمیشہ زندگی میں آگے جاتے ہیں۔
سید قاسم علی شاہ میں خامیاں ہوں گی، کس میں نہیں ہوتیں، مگر اس پر تنقید اس کی خامیوں کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوبیوں اور کامیابیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایسا منفی رویہ بلاجواز اور افسوسناک ہے۔