باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے
سیہون میں صوفی لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور شدید تنقید کی جا رہی ہے جس کی زد میں سیکورٹی فورسز اور سیاستدان سب ہیں، جن سے لوگ سوال بهی کر رہے ہیں۔
مگر اس ساری بحث میں سندھ میں بنیادی ڈهانچے کی زبوں حال کا ماجرا کهل کر سامنے آ گیا ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو گذشتہ نو سال سے صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے اور سنده اس کا گڑھ سمجها جاتا ہے۔
صحافی امر گوریرو نے لکها: ‘سیہون کے قریب ترین ہسپتال 135 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں پر بنیادی سہولیات بهی دستیاب نہیں ہیں۔ ‘
ان حملوں میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے الزام کے حوالے سے نظام بلوچ نے لکها: ‘کیا انڈیا اور افغانستان نے ہمیں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے بعد سہولت کے لیے ہسپتال تعمیر نہ کریں؟’
عثمان اسد نے اسی حوالے سے لکها کہ ‘لوگ زخمیوں کو ابتدائی طور پر موٹر سائیکلوں پر لے کر ہسپتال گئے کیونکہ کوئی ایمبولینس نہیں تهی۔’
مگر اس تبصرے کے مخالف رائے رکهنے والے بهی موجود ہیں جیسا کہ نعمان نے لکها ‘ہر بڑِے مزار کے قریب بڑے ہسپتال تعمیر کریں مگر ان مدرسوں کی امداد بند نہ کریں جن کی فنڈنگ بیرونی ممالک سے آتی ہے۔’
اور ایسے موقع پر جنرل راحیل شریف کو یاد کرنے والے بهی موجود تهے جس کی وجہ یہاں لکهنا ضروری نہیں۔
لاہور میں مال روڈ پر دوا ساز اداروں کی جانب سے احتجاج کی حفاظت کے لیے موجود پولیس اور ٹریفک پولیس کے سینیئر اہلکاروں پر خودکش حملے کے بعد اس احتجاج پر تنقید کی جا رہی ہے اور اس کے مقصد پر بات کی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے کلپس بھی شیئر کیے جا رہے ہیں جن میں لاہور کے چیف ٹریفک پولیس آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘خدا کے واسطے، اللہ رسول کے واسطے، احتجاج کریں مگر سائیڈ پر کریں۔ اس میں کسی کی جان جا سکتی ہے۔’
اور پھر انھی کی جان رات کے خودکش حملے میں چلی گئی اور احتجاج تتر بتر ہو گیا۔
احمد مبین کا اشارہ ٹریفک میں پھنسنے والی ایمبولینسوں کی جانب تھا جو مال روڈ کے بند ہونے کی وجہ سے گھر گئی تھیں۔
سید حسین نے لکھا کہ ‘لاہور ہائی کورٹ کو مال روڈ پر ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد کرنی چاہیے اور اس مقصد کے لیے کوئی جگہ مخصوص کی جانی چاہیے۔’
شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا ‘جب انٹیلیجنس تھی کہ لاہور میں ممکنہ طور پر خودکُش حملہ ہو سکتا ہے تو پھر اس قسم کے احتجاج کی اجازت کیوں دی گئی؟ میڈیا کا دباؤ تھا یا کچھ اور؟’
ایک صاحب نے فیس بُک پر لکھا ‘دھماکہ اور اس کے بعد مذمت۔ یہ تسلیم کہ اس کی مذمت کی جانی چاہیے مگر ان احتجاج کرنے والوں کا کیا جن کے ذاتی مفادات نے کئی بہنوں کو بیوہ کیا اور بچوں کو یتیم، اور جنھوں نے خودکش حملہ آور کو موقع فراہم کیا؟’
مگر سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج کرنے والوں پر اس سارے حملے کا الزام دھر دینا درست ہے؟
کیا یہ انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اجازت دینے سے پہلے اس سب کو ملحوظ رکھتے کیونکہ ماضی میں سیاسی اور دوسرے مظاہرین کو اجازت دینے سے انکار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
مگر جس طرح سکیورٹی کے ادارے حملوں کے بعد پھُرتی دکھاتے ہیں اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی لوگ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔
ایک نظم جو کیپٹن احمد مبین نے اپنی فیس بُک پروفائل پر چند دن قبل پوسٹ کی تھی اسے بہت زیادہ شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ خدا لگتی بہت ساری باتیں لکھ گئے ہیں:
میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
میں حد سے بڑھ گیا ہوں مجھے مار دیجیے
ہے امن شریعت تو محبت مرا جہاد
باغی بہت بڑا ہوں مجھے مار دیجیے