2030 تک اوسط متوقع عمر 90 کا ہندسہ چُھو لے گی
ایک تحقیق میں کہا گيا ہے کہ جنوبی کوریا کی خواتین دنیا میں پہلا گروہ ہوں گی جن کی اوسطً متوقع کُل عمر 90 سال کو چھو لے گی۔
لندن کے امپیریئل کالج اور صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او نے 35 ترقی یافتہ ممالک میں طولِ عمر کا تجزیہ کیا ہے۔
تجزیے میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کی اوسطً متوقع کُل عمر بڑھ رہی ہے اور اس کے بعد سے زیادہ تر ممالک میں مردوں اور خواتین کے درمیان طولِ عمر کا فرق کم ہوتا جائے گا۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس مطالعے سے بزرگوں کی پینشن اور ان کی نگہداشت کے متعلق بڑے چیلنجز پر روشنی پڑتی ہے۔
پروفیسر ماجد عزتی نےبتایا کہ ’جنوبی کوریا نے بہت سی چیزیں درست کی ہیں۔ یہ مساوات پر سب سے زیادہ عمل کرنے والا ملک نظر آتا ہے اور اس سے تعلیم اور غذائیت کے شعبے میں لوگوں کو فائدہ ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ابھی تک یہ ہائپرٹینشن یا بلڈ پریشر سے اچھی طرح نمٹنے میں کامیاب رہا ہے اور وہاں موٹاپے کی بیماری کی بھی شرح بہت کم ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاپان جہاں اوسط عمر سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی وہ اب فہرست میں نیچے چلا جائے گا۔
مطالعے کے مطابق یہاں کی خواتین کی اوسط عمر سب سے زیادہ ہوتی تھی لیکن اب جنوبی کوریا اور فرانس کی خواتین کے زیادہ تک جینے کی بات کہی جا رہی ہے۔
امیر ممالک میں کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں اوسط عمر سنہ 2030 تک سب سے کم ہو گی۔ مردوں کی اوسط عمر 80 اور خواتین کی 83 سال بتائی گئی ہے جو کہ میکسیکو اور کروئیشیا کی بھی ہے۔
پروفیسر عزتی نے کہا کہ یہ ممالک جنوبی کوریا کا بالکل الٹ ہیں۔ (امریکہ میں) سماج عدم مساوات کا شکار ہے جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور یہ واحد ملک ہے جہاں آفاقی ہیلتھ انشورنس ہے۔ یہ پہلا ملک ہے جہاں لوگوں کی لمبائی بڑھنا بند ہو گئی ہے اور اس کا تعلق ابتدائی زندگی میں غذائیت سے ہے۔
اس مطالعے کی خاص بات خواتین اور مردوں کی اوسط عمر کے فرق میں کمی ہے۔
پروفیسر عزتی کہتے ہیں: روایتاً مرد غیر صحت مند زندگی گزارتے ہیں اس لیے ان کی زندگی کم ہوتی ہے۔ وہ زیادہ شراب اور سگریٹ نوشی کرتے ہیں اور ٹریفک ایکسیڈنٹ اور قتل و خون میں زیادہ ملوث نظر آتے ہیں۔ اب خواتین اور مردوں کا طرز زندگی ایک طرح کا ہو رہا ہے اس لے ان کی عمریں بھی قریب آ رہی ہیں۔
اپنی تحقیق کے خلاصے میں پروفیسر عزتی نے کہا ہے کہ جن ممالک میں لوگوں کی عمروں میں بہتری نظر آئی ہے انھوں نے اپنے صحت کے نظام پر زیادہ خرچ کیا ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرائي ہے کہ اس کا ثمر سب تک پہنچے۔