صہیونیت،شیطانیت
اہل فلسطین کو اہل اسلام سے تو کوئی امید نہیں، مسلسل خون خون،مسلسل بمباری اور ہم کمزور
امت مسلمہ ہر دور میں اسلام دشمن عناصر کے نشانے پر رہی ہے۔
رخسانہ رخشی، لندن
شکست و ریخت سے دوچار، مسلسل خون خون لاشے،مسلسل بمباری، بچوں اور جوانوں کی نیلی پیلی لاشیں، نیلے نیلے ہونٹ بتا دیتے ہیں کہ خون کا ایک قطرہ بھی مجھ میں باقی نہیں، وہ میرے ارض مقدس کی زمین میں سما گیا ہے مگر ابابیلیں کب نازل ہوں گی، اللہ کی طرف سے کہ ہم اہل فلسطین کو اہل اسلام سے تو کوئی امید نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر دشمنان اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے۔
ہم خود ہی دشمن کے جدید ہتھیاروں کا پتھروں سے مقابلہ کر لیں گے، امت مسلمہ ہر دور میں اسلام دشمن عناصر کے نشانے پر رہی ہے۔ دشمن کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ کب مسلمانوں کو تیر ہدف پر رکھا جائے۔
اسلام دشمنوں نے بارہا سازشیں کیں کہ مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیا جائے مگر مسلمان ابھرتے ہیں ایسے کہ ہر مرتبہ ایک نیا جوش اور ولولہ دنیا میں نظر آتا ہے، کئی صدیوں سے مسلمانوں کو دبانے یا ختم کرنے سے مسلمان کم نہیں ہوئے اور نہ کمزور پڑتے ہیں مگر جہاں جہاں مسلمانوں ہی نے اپنے بھائیوں کا ساتھ نہیں دیا تو وہاں دکھ ہوتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ کیا ہم ہی ایک حضورؐ کی امت اور اس خدا کے ماننے والے ہیں، جس نے سچے دین کا راستہ دکھا کر صراط مستقیم جیسی راہ کی سبھی کو ہدایت سمجھا دی، پھر بھائی چارے کی زنجیر میں ہم سب کو ایک دوسرے کا پابند کردیا مگر ہم نے صراط مستقیم اور ہدایت دین سے حاصل بہت کیا ہے مگر دوسرے مسلمان بھائی پر جب بھی کڑا وقت آیا تو اپنی لڑائی انہوں نے خود ہی لڑی ہے۔
کسی نے بھی جرأت و بہادری سے ان کا ساتھ نہیں دیا، انہوں نے جو زیادہ ہی صراط مستقیم کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں مگر یہ قوم کو زعم ہے کہ حضورؐ کی امت بھی صرف ہم ہیں اور راہ ہدایت بھی صرف ہمارے لئے ہے۔ ہم ہی ہیں جو راج کریں گے چاہے اس امیری میں ہمیں کافرو یہود سے اچھے مراسم اور تعاون لینا پڑے، ہم ہی شاہانہ زندگی گزارنے کا ٹھیکہ ے کر آئے ہیں۔ ہم ہی تیل کے کنووئوں پر حق رکھتے ہیں، لگژری لائف بھی ہم ہی گزارنے کا حق رکھتے ہیں، ہم مدینہ و مکہ کے جیسی سرزمین پاک کے باسی ہیں، اسی لئے ہم معتبر ہیں، اسلام پر ہماری اجارہ داری ہے مگر ایک دین کا بتایا اصول کہ مسلمان صرف زہد و تقویٰ کی بنا پر برتری حاصل کرسکتے ہیں، باقی تمام کی حیثیت برابر ہے مگر ہمارے پاک عربی اس سنہرے اصول پر کاربند نہیں، اس کا مطلب یہ کہ تم نے ہی مرنا ہے ہم نے تو نہیں۔
کیا ارض مقدس اور مسجد اقصیٰ ہم تمام مسلمانوں کی نہیں؟ ان کی لڑائی ہماری اپنی لڑائی نہیں۔ ایسے تو صیہونیت کے شیطان بڑھتے جائیں گے، ہماری کمزوری دیکھ کر کہ کشمیریوں، فلسطینیوں اور جہاں جہاں مسلمانوں پر ستم ہو رہے ہیں، وہاں مسلمان ہی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتا۔ مظلوم کی دادرسی ان کے اپنے لوگ ہی نہیں کرتے تو صیہونیت تو آگے ہی بڑھتی جائے گی۔ بلکہ بڑھ بھی چکے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی صفوں میں پھیلا انتشار پوری دنیا کو نظر آتا ہے کہ ظلم کی چکی میں پستے مظلوموں کی ہمدردی میں صرف جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ان کی ہمدردی میں کوئی دین کے ٹھیکیدار جہاد میں حصہ نہیں لیتے، کسی امیر مسلم ملک سے اسلحہ کی امداد بھی نہیں دی جاتی۔ خیر جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے مگر جب فلسطینی جیت پر اظہار تشکر کیلئے سجدہ ریز ہوئے تو بھی اسرائیل شیطانی صیہونیت سے باز نہ آیا کوئی نہ کوئی شرارت تو ا ن کی ہی طرف سے ہوئی اور حماس کو اس قدر خوشی ہے کہ انہوں نے اسرائیلیوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے لیکن یہ خوش فہمی ہے کہ ہمارے لئے اس مرتبہ دنیا بھر سے لوگ نکلے ہیں، ان کے حق میں آواز اٹھائی گئی ہے مگر اس ہمدردی میں ایک اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ فلسطین نے خوشی سے اپنی زمین یہودیوں کو بیچی تھی۔ یعنی اگر ہمیں فلسطینیوں سے ہمدردی ہے تو وہاں بھی اعتراض نکال لئے گئے، اس مرتبہ کے فلسطین کے رنج و الم میں یہ اعتراض بہت سے لوگوں نے اٹھایا۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی جواب دیا کہ اسرائیل نے زمینیں خریدی نہیں تھیں بلکہ وہ زبردستی قابض ہوئے تھے۔ پھر ہسٹری یہ نکال کر لائے معترض لوگ کہ یہود کو دو ادوار میں زمینیں بیچی گئیں، ایک 1828ء سے 1908ء تک اور دوسرا 1908 سے 1914ء تک۔ بہرحال ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ فلسطین نے کیا کیا۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم نے فلسطین کے مظلوموں کیلئے کیا کیا۔ پہلے تو بہت سے لوگ فلسطین اور کشمیر کیلئے جاری جنگ میں جہاد کیلئے یا کسی بھی اہم مشن کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکل جاتے تھے مگر اب صرف ریلیوں میں شامل ہونے کو ہی فلسطین سے ہمدردی کو بہت جان لیا جاتا ہے۔ اہل فلسطین تو خدا کے سامنے جوابدہ ہیں کہ وہ ارض مقدس کیلئے بہادری سے لڑ رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں مگر ہم سے بھی سوال ہوگا کہ ہم نے اس لڑائی میں ان کا کتنا ساتھ دیا۔ بے شک اسرائیلیوں نے جنگ بندی کا اعلان کردیا مگر جب عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے کئی سو کی تعداد میں شہید کرکے بتایا کہ اہل فلسطین زیادہ خوش نہ ہوں، اس خون میں رنگی جیت پر کہ وہ لہو رائیگاں نہ جائے۔
کیوں نا اس کے بدلے عمر بھر کا سکون ہو جائے، آپ کی مقدس سرزمین پر اور ویسے بھی صیہونیت شیطان بن کر رمضان میں شرارت کرتی ہے اور کون سارمضان ہے، جب انہوں نے ارض مقدس کو لہو لہو نہ کیا، ابھی اگلے رمضان میں بھی یہ شیطانیت سے باز نہ آئے تو کیا پھر سے ہم آنے والے وقت کو بھلا کر صرف آج کی جیت کا جشن منائیں۔ کیا آئندہ کوئی شہادت نہ ہوگی؟ صیہونیت ختم ہو جائے گی ؟ صدیوں سے فلسطینی یہاں آباد ہیں، اس خطے کے چپے چپے میں ان کے آبائو اجداد کے سجدوں کی مہر ثبت ہے مگر وہیں لہو بھی ہے۔ یعنی یہ چوتھی ہجری سےچلی چپکلش ختم ہونے کا تاحال نام نہیں لے رہی، بھلے ہی مسلمانوں نے ہٹلر کے دور یہودیوں کو یاد کرائے مگر ان پر اثر نہیں ہوتا، ان کے سر خون چڑھا ہے تو یہ باز نہیں آئیں گے۔ اب تو واقعی خدا کی خاص مدد ابابیلوں کی صورت میں چاہئے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔