پہلے اسپتال اور اسکول یا پہلے سڑکیں؟
گوادر میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم کہا کہ سڑکیں بننے سے پہلے ترقی نہیں آتی انھوں نے کہا کہ پہلے سڑکیں بنتی ہیں اس کے بعد اسکول و کالج اوراسپتال بنتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب سڑک نہیں ہوتی تو آسمان کے راستے سکول اوراسپتال نہیں آتے۔
سڑکوں یا موٹر وے کی تعمیر ہمیشہ سے وزیر اعظم نواز شریف کی پہچان رہے ہیں اچھی بات ہے کہ کچھ منصوبے تو ایسے ہیں جو وزیراعظم نواز شریف کی پہچان ہیں مگر یہ کہہ کر کہ پہلے سڑکیں بنتی ہیں بعد میں ہسپتال یا سکول بنتے ہیں جواز نہیں بنایا جا سکتا کہ سکول یا ہسپتال سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہیں کیونکہ سکول یا ہسپتال کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ انکو کسی ٹرک میں لوڈ کرکے سڑکوں کے ذریعے کسی جگہ پر رکھ دیا جائے اور نہ ہی کسی مریض نے انتظار کرنا ہے کہ سڑک بنے گی اس پر سفر کرکے ہسپتال جاوں گا اور نہ ہی کسی بچے کو یہ جواز بنا کر سکول سے دور رکھا جا سکتا ہے یہاں اصل سوال ترجیحات کا ہے ہسپتالوں کی وجہ سے زندگیاں بچتی ہیں اور سکولوں کی وجہ سے نسلیں بنتی ہیں جبکہ سڑکیں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے ہوتی ہیں اب خود اندازہ لگا لیں کہ اگر ان میں سے کونسی چیز کی غیر موجودگی کس چیز کو متاثر کرے گی عام سڑک منزل تک تو پہنچا ہی دے گی مگر خستہ حال ہسپتال زندگیوں کے لیے خطرہ اور ایسے ہی سکول نسلوں اور قوموں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص نے گھر تعمیر کروایا اس نے گھر کی تعمیر میں نہ تو پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام کیا نہ کمروں میں بنیادی ضرویات کا خیال رکھا اور نہ ہی واش روم میں سیوریج کا مناسب انتظام کیا مگر روشنی کے لیے عام بلب کی بجائے قیمتی فانوس لگوا دیے قیمتی اور فینسی قسم کے دروازے یا کھڑکیاں لگوا دی روشنی بہرحال عام بلب سے بھی ہو سکتی تھی عام مگر مضبوط دروازوں سے کام چلایا جا سکتا تھا مگرسیوریج کا نا مناسب ہونا اور کمروں میں بینادی ضروریات کا نہ ہونا زندگی اجیرن کر دے گا۔ سڑکیں ضرور بنائیں مگر مریضوں کا علاج ہسپتال کے فرش کی بجائے مناسب بستروں پر ہو رہا ہو زچگی کے دوران شرح اموات نہ ہونے کے برابر ہو سکولوں میں پڑھائی کا مناسب انتظام ہو پینے کا صاف پانی میسر ہو جیسا کہ پینے کے صاف پانی کا ذکر آپ نے گوادر میں بھی کیا مگر آپ نے سڑکوں کی تعمیر کی طرح صاف پانی کے لیے کیا منصوبندی کی اسکا ذکر تک نہ کیا ادارے بنانا اور ان کو فعال رکھنا بھی تو حکومت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔
مثلا یہاں وزیراعلی شہباز شریف کا میٹرو بس میں کیا گیا ٹی وی کا ایک پروگرام یاد آگیا میزبان اینکر نے وزیر اعلی کی موجودگی میں جب ایک بزرگ سے پوچھا کہ میٹرو بس کیسی ہے تو بزرگ نے کہا کہ یہ تو پتہ نہیں کیسی ہے مگر انھوں نے پولیس پر سختی نہیں کی اور شکوہ کیا پولیس بلکل تعاون نہیں کرتی بعد میں وزیراعلی نے بھی پولیس کی زیادتیوں پر اتفاق کیا اور مانا کہ پولیس کو ٹھیک نہ کر سکا۔
یہاں ایریزونا اور سنورا شہروں کی مثال دی جا سکتی ہے جو کسی زمانے میں ایک ہی شہر تھا مگر اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا شمال میں ایریزونا ہے جہاں کے شہریوں کی اوسط عمرپینسٹھ سال سے زائد ہے جہاں عام لوگوں کی سالانہ آمدنی ۳۰ ہزار ڈالر ہے چھوٹے بچے سکول جاتے ہیں اور نوجوان گریجوٹس ہیں لوگوں کا معیار زندگی بہت اچھا ہے امن و امان کی صورتحال مثالی ہے کرپشن بہت کم ہے اور حکومت لوگوں کی ایجنٹ ہے جبکہ جنوب میں سنورا شہر ہے جہاں کی آب وہوا موسم زمین بلکل ایریزونا جیسی ہی ہے مگر یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر وہاں کے لوگوں سے کم ہے سالانہ انکم ان سے ۳ گنا کم ہے امن و امان کی صورتحال بہت ہی خراب ہے شیر خوار بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے اور کرپشن بھی عروج پر ہے چوری اور ڈکیتی بھی ہے ان دونوں شہروں میں بنیادی فرق اداروں کا ہے ایک نے اداروں پر توجہ دی اپنی ترجیحات کو بنیاد بنا کر کام کیا اور آج ہم اس کی مثال دینے پر مجبور ہیں۔
تو بات صیح ترجیحات کی ہے جن ممالک نے بھی اپنی ترجیحات درست رکھی وہ ممالک آج مثالی ہیں خود وزیراعظم دروہ امریکہ کے دوران امریکہ کی خستہ حال سڑکوں کا شکوہ کر چکے ہیں کہ سڑکیں ٹھیک نہیں شکوہ کرنے سے پہلے وزیراعظم کو سوچنا ضرور چاہیے تھا کہ اس ملک نے اپنی ترجیحات میں سڑکوں کو نہیں رکھا تھا آج وہ کہاں کھڑا ہے آج جب وہاں ادارے مثالی ہیں وہاں شہریوں کو صحت کی بنیادی ضروریات سمیت باقی بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں آج وہاں کے صدر بھی سڑکیں اچھی کرنے کی بات کر رہے ہیں یہ ہیں ترجیحات جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ پہلے دو ادوار کی طرح اپنے کریڈٹ پر صرف موٹروے اور سڑکیں گنوانا فخر نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہوگا۔