بلاگ

23 مارچ 1940 ۔۔۔۔اصل دستاویز کہاں ہے؟

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ قرارداد لاہور کے تین روزہ اجلاس کا اختتامی سیشن شروع تو 23 مارچ 1940 کو ہوا تھا لیکن یہ قرارداد رات کے دو بجے کے قریب منظور ہوئی تھی۔ 1941 میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اس کی پہلی سالگرہ منانے کا اہتمام کیا تو یہ سوال اٹھایا گیا کہ قرارداد کی منظوری کی تاریخ تو 24 بنتی ہے، اس لیے اسے 24 مارچ کو منایا جائے۔ اس پر قائداعظم نے فیصلہ دیا کہ قرارداد کی سالگرہ 23 مارچ کو ہی منائی جائے۔ اس طرح 1941 میں 23  مارچ کو  ہی اس کی یاد منائی گئی۔

 

قائداعظم کا اس فیصلے اور قرارداد لاہور کے اجلاسوں کا مکمل اوریجنل ریکارڈ، جو کہ 21 مارچ 1940 سے شروع ہو کر 24 مارچ 1940 تک جاری رہے تھے، پاکستان نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ہے لیکن وہ پیپر جن پر یہ قرارداد لکھی گئی تھی، وہ گم شدہ تھی۔ اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں؛ ایک کے مطابق اس قرارداد کی اوریجنل دستاویز پیر علی محمد راشدی کے پاس تھی، جو سندھ کے مشہور سیاسی گھرانے کے فرد ہے۔

ایک روایت یہ ہے کہ وہ دستاویز شمس الحسن سید کے پاس تھی۔ شمس الحسن سید نے 1914 سے آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں جائنٹ سیکرٹری کے طور پر کام سنبھالا اور بعد میں مرکزی سیکریٹری ہو گئے تھے۔ 1947 تک وہ اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ پاکستان کی تخلیق کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی دفتر میں بھی یہی عہدہ سنبھالا، جو 1958 کے مارشل لا تک جاری رہا۔ 1947 میں وہ قائداعظم کے حکم پر آل انڈیا مسلم لیگ کا سارا ریکارڈ، پاکستان لے آئے تھے۔ سید صاحب، واجد شمس الحسن کے والد تھے، وہی واجد شمس الحسن، جو زرداری دور میں پاکستان کے انگلینڈ میں ہائی کمشنر رہے، جن کا نام زرداری کیس کے سوئیس پیپرز کے سلسلے میں بہت مشہور ہوا تھا۔ ’’قرارداد لاہور‘‘ کو بعد میں ’’قرار داد پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔

یہ تفصیلات نوے کی دہائی میں میرے ریڈیو پروگرام سوغات کے ہفتہ وار سلسلے ’’ایک اہم دستاویز‘‘ میں ڈائریکٹر جنرل آرکائیوز، عتیق ظفر شیخ نشر کر چکے ہیں۔ اس وقت تک اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ کی اڑھائی تین لاکھ دستاویزات نیشنل آرکائیوز میں آ چکی تھیں، جنہیں قائداعظم پیپرز کا نام دیا گیا ہے لیکن  2006  میں سید شمس الحسن کے صاحبزادے خالد شمس الحسن نے، اپنے والد کی دستاویزات کا ذاتی اثاثہ بھی کیبنٹ ڈویژن کو عطیہ کر دیا تھا، جسے ’’شمس الحسن کولیکشن‘‘ کہتے ہیں۔ اب ممکن ہے 23 مارچ کی قرارداد کی اوریجنل دستاویز اس کولیکشن کے ساتھ نیشنل  آرکائیوز میں آ چکی ہو۔ بہرحال میری معلومات نوے کی دہائی کی ہیں۔ عتیق ظفر شیخ نے اس دوران 45 سے زیادہ پروگرام نشر کیے تھے، جن کا مکمل ریکارڈ بھی آرکائیوز میں محفوظ ہے۔

میں نے یہ معلومات ان دستاویزات کی بنیاد پر پیش کی ہیں، جو ڈائریکٹر جنرل نیشنل آرکائیوز اسلام آباد نے میرے پروگرام سوغات میں نشر کی تھیں، وہ اس کی فوٹو کاپی بھی مجھے دے دیا کرتے تھے۔ وہ 45 کے قریب پروگرام تھے۔ ایک وقت میں میرا ارادہ تھا کہ میں ان دستاویزات پر کتاب چھاپوں۔ بہت  نادر اور دل چسپ معلومات تھیں، مثلاً اقبال کا پاسپورٹ، قائداعظم کا پاسپورٹ، قائداعظم کی گاڑیاں، قائداعظم کی بیگم کے زیورات کی فہرست، قائداعظم کی بیٹی کا جدائی کے بعد قائد کے نام خط وغیرہ۔

میں نے وہ پروگرام ٹرانسکرائب بھی کر لیے تھے لیکن پھر خیال آیا کہ میں اس کام کی اتھارٹی نہیں ہوں۔  اس فیلڈ میں معری آمد محمد اسلم گھنجیرا مرحوم کی دوستی اور قربت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اتھارٹی نہ ہونے کے خیال نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ان دستاویزات میں سب سے دکھی وہ خط لگا، جو قائداعظم کی بیٹی دینا واڈیا نے انہیں لکھا تھا۔ دینا کو شاید کسی کتاب کی ضرورت تھی، جو قائداعظم کے پاس تھی۔ قائداعظم نے اس خط کا جواب، پدرانہ جذبات کے اظہار کی بجائے ’آفیشل ٹون‘ میں دیا ہے۔

یہ بیٹی سے ناراضی کے بعد کا واقعہ ہے۔ یہ خط دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ کردار میں اتنی پختگی، قائداعظم ہی کا خاصا تھی ورنہ تو ہمارے عہد کے کئی ممتاز لوگوں نے، جن کی بیٹیوں نے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رکھی ہیں، بیٹیوں سے تعلقات نہیں توڑے۔ قائداعظم نے غیر مسلم سے شادی پر اپنی اکلوتی اولاد کو زندگی بھر معاف نہیں کیا اور دوبارہ اس کا منہ تک نہیں دیکھا۔ بہرحال یہ دستاویزات، جنہیں ’’قائداعظم پیپرز‘‘ کہا جاتا ہے، نیشنل آرکائیوز میں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔

قائداعظم پیپرز اٹھارہ سے زیادہ جلدوں میں حکومت پاکستان کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ ریکارڈ 113 بوریوں  46  ٹین کے بکسوں اور 70000 شائع شدہ دستاویزات پر مشتمل تھا، جسے ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے برسوں کی چھان پھٹک کے بعد مرتب کیا تھا۔ انہوں نے اپنا شائع شدہ کام  23 مارچ  2004  کو قائداعظم کی صاحبزادی دینا واڈیا کی خدمت میں پیش کیا، تو ان کے یہ کمنٹس سن کر ڈاکٹر زیدی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ’’اس کام پر میرے والد آپ کے مشکور ہوئے ہوں گے۔‘‘

آخری دنوں میں ڈاکٹر زوار حسین زیدی کو ایک سخت صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ڈیلی نیشنل کی 31 مارچ  2015  کی رپورٹ کے مطابق ان کی بیگم پروین زیدی بتاتی ہیں ’’ہمیں اچانک اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کا نوٹس ملا، جس سے ڈاکٹر زیدی سخت صدمے کا شکار ہوئے اور لاہور نقل مکانی کے ٹھیک تین ماہ بعد 31 مارچ 2008  کو 81 برس کی عمر میں انتقال کر گئے لیکن آنے والی نسلوں کے لیے علم و تحقیق کا ایک بیش بہا خزانہ چھوڑ گئے۔ سٹینلے والبرٹ کی رائے میں ’’قائداعظم لائف ورک پر سب سے بڑی اتھارٹی ڈاکٹر زوار حسین زیدی تھے۔‘‘

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close