جنرل راحیل شریف اور عرب اتحاد – سلیم صافی
بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے میرے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میرے سوالوں کے جواب میں اعتراف کرلیا کہ جنرل راحیل شریف کے معاملے پر حکومت پاکستان نے سعودی عرب کی حکومت کی تحریری درخواست کے جواب میں آمادگی ظاہر کردی ہے اور اب جنرل راحیل شریف اس عرب اتحادی فورس کی سربراہی کے لئے کسی بھی وقت وہاں جاسکتے ہیں۔ خواجہ آصف نے یہ بھی اعتراف کرلیا کہ یہ معاملہ حکومت سعودی عرب اور حکومت پاکستان کے درمیان ہے اور تفصیلات بھی دو نوں حکومتوں کے مابین طے ہوں گی۔ خواجہ صاحب نے اسے عمرے کا نام دیا لیکن میری معلومات کے مطابق وہ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کا دورہ کرکے تمام تفصیلات پر بات چیت کرچکے ہیں اور جب میں نے ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ میری معلومات کے مطابق وہ سعودی عر ب کا دورہ بھی کرچکے ہیں تو انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اعتراف کیا کہ ہاں وہ عمرے پر گئے تھے اور وہاں حکام سے ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن مجھے اصرار ہے کہ اس دورے کا اصل مقصد اس حوالے سے تفصیلات طے کرنا تھا حالانکہ بنیادی امور وزیراعظم اور سعودی قیادت کے مابین کب کے طے ہوچکے ہیں اور اس معاملے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی مشاورت ہوچکی ہے۔ جنوری کے مہینے میں جب جنرل راحیل شریف کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تو حسب روایت حکومت نے اگر مگر سے کام لے کر یہ تاثر دیا کہ جیسے جنرل راحیل شریف یہ سب کچھ اپنے تئیں کررہے ہیں اور پھر اس بنیاد پر میڈیا میں جنرل راحیل کے امیج کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اس وقت جب ہر طرف سے جنرل راحیل شریف پر تبرا بھیجا جارہا تھا تو میں نے 14جنوری 2017ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ’’راحیل شریف اور عرب اتحاد۔ چند حقائق‘‘ کے زیرعنوان کالم میں لکھا کہ حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ جیسے جنرل راحیل شریف کے عرب اتحاد میں بطور کمانڈر تعیناتی سے اس میں پاکستان کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ ہوگا حالانکہ پاکستان کب کااس اتحاد کا حصہ بن چکا ہے اور یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ میاں نوازشریف کی حکومت نے ہی کیا ہے۔
حکومت پاکستان نے معذرت (میڈیا اور پارلیمنٹ کے دباؤکے بعد) یمن فوج بھیجنے سے کی تھی نہ کہ مذکورہ اتحاد میں شامل ہونے سے۔ اگر میرا دعویٰ غلط ہے تو وزیراعظم ہائوس یہ بیان جاری کردے کہ وہ اس اتحاد کا حصہ ہے اور نہ بنے گا۔ اگر ایسا کوئی تحریری بیان جاری ہوا تو میں معافی مانگنے میں دیر نہیں لگائوں گا۔ میرا دعویٰ ہے کہ پاکستان نہ صرف اس اتحاد کا حصہ بن چکا ہے بلکہ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے مابین خط و کتابت بھی ہوچکی ہے۔ وزیراعظم اور سعودی حکمران کئی بار اس اتحاد کی تفصیلات اور اس میںپاکستانی کردار پر بھی مذاکرات کرچکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے رول کی بات چیت بھی ایک سال سے چل رہی ہے اوروزیراعظم اس پر سعودی حکمرانوں اور خود جنرل راحیل شریف سے بھی کئی بار بات کرچکے ہیں۔ اتحاد میں پاکستان کے رول کو جنرل راحیل شریف نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے سعودی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ طے کرنا ہے۔ اب اگر یہ جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب جنرل راحیل شریف سے پہلے حکومت پاکستان کرچکی ہے اور اگر ایران نے ناراض ہونا ہے تو وہ ناراض ہوچکا ہے کیونکہ جنر ل راحیل شریف نہ جائیں تو بھی پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہے۔جو لوگ ایران کی ناراضی سے ڈرا رہے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایران پہلے سے ناراض ہے اور اسی لئے وہ ہندوستان کے ساتھ قربتیں بڑھانے میں آخری حدوں تک جارہا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد بظاہر سعودی بنارہے ہیں لیکن اصل سرپرستی امریکہ کررہا ہے۔ حکومت پاکستان اور دیگر ممبر ممالک کے ساتھ سعودی عرب نے جو خط و کتابت کی ہے، اس میں بھی امریکی کردار کا ذکر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اومان جیسے ملک،جہاں شیعہ اور ابازی بڑی تعدادمیں بستے ہیں اور جس کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں‘ بھی ا س اتحاد کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب جس اتحاد کو امریکہ کی شہہ پر بنایا جارہا ہو‘ جو سعودی عرب کی قیادت میں بن رہا ہو اور جس میں مصر ‘ ترکی اور اومان جیسے ممالک بھی شامل ہوں‘ کیا ا س میں شمولیت سے میاں محمد نوازشریف معذرت کرسکتے تھے۔ اگر سعودی عرب یو اے ای کے ذریعے آصف زرداری کو کہلوادیں تو کیا وہ پھر مخالف رہ سکیں گے ؟ اگر امریکی برطانیہ کے ذریعے عمران خان کو کہلوادیں تو کیا وہ پھر مخالفت کی ہمت کرسکیں گے ؟ اسی طرح اگر عرب ممالک جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا چندہ بند کرادیں تو کیا ان کے رہنما مخالفت میں زبان کھول سکیں گے۔
جو عرب اتحاد بن رہا ہے اور جس میں پاکستان روز اول سے ممبر بن چکا ہے، بنیادی طور پر ایک اسٹرٹیجک اتحاد ہے جسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے فیصلے نہ تو جنرل راحیل شریف یا کوئی اور کمانڈر کریں گے اور نہ صرف سعودی حکمران۔ فیصلہ ساز فورم وزرائے دفاع پر مشتمل ڈیفنس منسٹرز کونسل ہو گی۔ گویا اگر جنرل راحیل شریف نے عہدہ قبول بھی کیا تو پاکستان کی نمائندگی وہاں خواجہ آصف اور پاکستانی کردار کا تعین وزیراعظم نوازشریف یا جنرل قمر باجوہ کریں گے نہ کہ جنرل راحیل شریف۔میری معلومات کے مطابق اتحاد کے مقاصد اور اسٹرکچر کو مارچ تک آخری شکل دی جائے گی اور ان کا تعین ممبر ممالک کی حکومتوں کی مشاورت سے کیا جا ئے گا۔ سعودی حکومت نے اپنی طرف سے جنرل راحیل شریف کو منصب کی پیش کش کی ہے اور ذرائع کے مطابق انہوں نے اصولی آمادگی ظاہر کی ہے لیکن ابھی ان کے عہدے کا نام بھی طے نہیں ہوا۔ سعودی حکومت اپنے اتحادیوں کے مشورے سے مارچ تک اس کو حتمی شکل دے گی۔ اس کے بعد اگر ڈیل طے پاتی ہے تو جنرل راحیل شریف حکومت پاکستان اور فوج سے باقاعدہ اجازت کے بعد ہی وہاں جاسکیں گے۔ حکومت پاکستان اجازت نہ دے تو جنرل راحیل شریف کبھی نہیں جاسکتے۔ گویا فیصلہ بنیادی طور پر جنرل راحیل شریف نہیں بلکہ میاں نوازشریف کے ہاتھ میں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ میاں صاحب دوبارہ ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سعودیوں کوبھی خوش رکھیں اور ایسی فضا بنادیں کہ جنر ل راحیل شریف کے لئے جانا بھی ممکن نہ رہے۔ پھر وہ سعودیوں سے کہیں گے کہ میری حکومت تو آپ کے اتحاد میں شامل ہے۔ مجھے کوئی مسئلہ ہوتا تو آپ کے اتحاد میں شامل نہ رہتا۔ میں نے تو جنرل راحیل کو بھی نہیں روکا اور بہت پہلے ان کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا تھا لیکن اب کیا کریں وہ خود نہیں آرہے ہیں یا ان کا ادارہ ان کو آنے نہیں دے رہا۔ اسے کہتے ہیں شریفانہ سیاست ‘ جس کی زد میں اب کی بار پاکستان کے مفادات کے ساتھ ساتھ ایک اور شریف بھی آگئے ہیں۔ ‘‘
14 جنوری کے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے، سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں کے مابین ہورہا ہے اور یہ کہ یہ جنرل راحیل شریف کا ذاتی معاملہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ خواجہ آصف کے اس اعتراف نے میری اُس رائے کو درست ثابت کردیا۔ تب عرض کیا تھا کہ مارچ کے مہینے میں اس معاملے کو حتمی شکل دے دی جائے اور اللہ کا شکر ہے کہ مارچ ہی میں اس کوحتمی شکل دے دی گئی۔ عرض کیا تھا کہ اصل فیصلہ ساز فورم وزرائے دفاع کا مشاورتی کونسل ہوگا اور خواجہ آصف کے دورہ سعودی عرب سے ثابت ہوگیا کہ اصل فورم یہی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ حکومت کررہی تھی تو اس وقت قوم سے سچ کیوں نہیں بولا گیا اور اس معاملے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر جنرل راحیل شریف کو ایسے وقت میں متنازع کیوں بنایا گیا جب وہ پاکستان کا نمائندہ بن کر ایک ہم ذمہ داری سنبھالنے جارہے ہیں۔ یقیناً جنرل راحیل شریف کا دور میڈیا اور جمہوریت کے لئے ایک مشکل ترین دور ثابت ہوا۔ ان کے دور میں جب ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کردار کشی ہورہی تھی تو وہ خاموش رہے یا پھر بعض حلقوں کے نزدیک خوش ہوتے رہے لیکن یہ کیا طریقہ ہے کہ ہم ہر آنے والے کو سر پر اٹھادیتے ہیں اور جانے کے بعد ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھاتے۔ کالم کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ جنرل راحیل شریف کا یہ فیصلہ شاید ان کی ذات کے لئے اچھا ثابت نہ ہو اور ان کی نیک نامی پر مزید حرف آئے لیکن پاکستان کے لئے یہ انتہائی مفید ہے۔ اس فیصلے میں ایران کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں بلکہ اسے بھی فائدہ ہوگا۔ زندگی رہی تو اگلے کسی کالم میں اپنی اس رائے پر دلائل دینے کی کوشش کروں گا۔ آج اتناہی کافی ہے۔