سکھ برادری دنیا کے رحم دل اور مدر گار ترین لوگ کیسے بن گئے
سکھ مذہب کی آج سے تقریباً 500 سال قبل انڈیا کے پنجاب کے خطے میں بنیاد رکھی گئی تھی اور آج یہ دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے مگر کیا وجہ ہے سکھ افراد عادتاً صحیح کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں
آپ کسی بھی قدرتی آفات یا تباہی کے منظر کو سوچیں تو آپ کو وہاں پر سکھ رضا کار جائے وقوع پر پہنچتے نظر آئیں گے،مہاجرین کو کھانا کھلاتے، مظاہروں کے متاثرین کی مدد کرتے یا کسی زلزلے کے بعد وہاں مکانات کی تعمیرِ نو کرتے۔
چاہے وہ میانمار میں روہنگیا بحران ہو، یا پیرس میں دہشت گردی، انڈیا میں کسانوں کا احتجاج ہو یا امریکہ میں جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف مظاہرے، تین کروڑ آبادی کی اس برادری کے لوگوں نے مکمل اجنبیوں کی ان کے مشکل ترین موقعوں پر مدد کرنے کو روایت بنایا ہوا ہے۔
اور دنیا میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران تو یہ نئی بلندیوں کو پہنچ گئی ہے۔
مغربی انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں ایک گرودوارے نے پچھلے سال 10 ہفتوں میں 20 لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا تھا۔ ادھر کچھ اور گرودواروں نے جو 50 سال میں سونا جمع کیا تھا اسے پگلا پگلا کر ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کی مدد کی۔
انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران جب آکسیجن کی کمی تھی تو سکھ غیر سرکاری تنظیموں نے ’آکسیجن کے لنگر‘ کیمپ بھی لگائے تھے۔
مگر سکھ برادری دنیا کے رحم دل اور مدر گار ترین لوگ کیسے بن گئے۔ ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو اچھائیوں کی ترغیب دیتا ہے مگر سکھوں نے ان باتوں کو اپنے عمل میں موثر انداز میں کیسے تبدیل کیا ہے؟
یہ سوچ اس مذہب کے بانی گورو نانک تک جاتی ہے جنھوں نے اس بات کی ترغیب دی کہ بے لوث خدمت (جسے سیوا کہتے ہیں) اور محنت اتنی ہی اہم ہے جتنی عبادت۔
جب سکھ لوگ گرودوارے میں جاتے ہیں تو وہ اپنی مقدس کتاب پڑھنے اور شکر ادا کرنے اور عبادت میں جتنا وقت لگاتے ہیں اتنا وقت ہی وہ لنگر پکانے اور صفائی کرنے میں صرف کرتے ہیں۔
سکھ گرودوارے صرف عبادت گاہیں ہی نہیں ہیں، وہاں بے گھر افراد رہ سکتے ہیں، وہ کمیونٹی سنٹر بھی ہیں اور لنگر خانے بھی۔
سکھوں کی ریت میں سیوا ڈال کر گورو نانک نے خدمت ان کے ڈی این اے میں ڈال دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سدھو کا سکھوں کے مذہبی مقام ‘کرتار پور صاحب’ کا راستہ کھولنے پر عمران خان کا شکریہ
اسی لیے سبزی فروش بلجندر سنگھ گذشتہ 40 سال سے ہر جمعے کو اپنی مقامی مسجد میں جا کر مسلمانوں کے جوتوں کا خیال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے انسانیت کسی بھی مذہب سے بڑھ کر ہے۔‘
جدید سائنسی تحقیق کا کہنا ہے کہ اپنے مسائل سے توجہ ہٹا کر دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کی ذہنی صحت پر انتہائی مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ کسی کی مدد کرنے سے کافی فوائد کا تعلق ہے، جیسے کہ بلڈ پریشر میں کمی، بہتر موڈ، اور بہتر خوشی کا تناسب۔
اور ہاتھوں سے کام کرنا بھی کوئی بہت طاقتور اور پرسکون چیز ہے۔ آپ پشمینہ بننے والوں یا جاپانی میک اپ برش بنانے والوں سے بات کریں تو وہ اسے ایک مراقبہ کہتے ہیں۔
97 سالہ نشارت کوئر ماتھارو کی مثال لے لیں جو کہ لندن کے ساؤتھ ہال میں ایک بے گھر افراد کی پناہ گاہ میں کھانا پکاتی ہیں۔ ان کی عمر اتنی زیادہ ہے کہ وہ اب آرام سے بیٹھ سکتی ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ جب تک آپ کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں تو آپ کو انھیں دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کرنا چاہیے، یعنی کام کرنا ہی ایک سکون کا ذریعہ ہے۔ ایک ایسا مراقبہ جس میں آپ کو اپنے ذہن کو خاموش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اور پھر نووسکوشیا میں ڈانسنگ سکھ ہسمیت سنگھ چندوک ہیں جنھیں اکثر مسلمان تصور کیا جاتا ہے۔ اس پر غصہ ہونے کے بجائے انھوں نے بھنگڑے کی ویڈئوز بنانا شروع کر دیں تاکہ دوسروں کی مدد ہو سکے۔
اصل میں اس طرح مددگار ہونے کا راز یہ ہے کہ یہ کچھ اور رویوں اور سوچ کا قدرتی نتیجہ ہے۔ سکھ افراد دن میں دو چیزوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔
پہلی چیز ہے ’سربت کا بھلا‘ یعنی سب کی بہتری اور خیر اور ایسا کرنے سے وہ اس چیز کو تسلیم کر رہے ہیں کہ تمام لوگ بہتری کے مستحق ہیں۔ یہی سیوا کی بنیاد ہے اور اسی لیے گرودوارے سب لوگوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔
دوسری چیز ہے ابدی بہتری جسے وہ چڑدی کالا کہتے ہیں۔ سکھ لوگ یہ دو الفاظ زندگی میں ہر موقع پر استعمال کرتے ہیں جیسا کہ عبادت گاہ میں داخل ہوتے وقت، شادیوں پر، کسی بھی جشن پر یا جب کوئی مشکل آ جائے۔
اسی لیے سیوا کا مقصد اپنی زندگی میں خودی کو تلاش کرنا ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس بات سے متفق ہیں کہ دو قسم کی خوشیاں بھرپور زندگی گزارنے میں مدد کرتی ہیں۔
لذت پسندی پر مبنی خوشی جو کہ بیرونی عناصر جیسے کہ تعریف، مال یا عیاشی پر مبنی ہوتی ہے اور دوسری نظریاتی خوشی جو کہ کوئی نیا ہنر سیکھنے، فیملی کے ساتھ وقت گزارنے یا کمیونٹی سروس کرنے سے ملتی ہے۔
سکھ لوگ ان دونوں اقسام کی خوشیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس برادری میں بھی ضیاع، مرد پرستی، جرائم جیسے مسائل ہیں۔ اور یہ اتنے ہی ہیں جتنی ان کی اچھائیاں ہیں۔ مثال کے طور پر انڈین پنجاب میں منشیات کا استعمال اور اس سے منسلک جرائم پورے ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔
سکھ بھی ہماری طرح پرخطا انسان ہیں اور میں یہ نہیں کہنا چاہتی کہ وہ ہم سب سے بہتر ہیں۔ وہ نہیں ہیں۔ مگر ان کے مذہب اور روایات کی وجہ سے ان میں بہت سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔
سکھوں میں اچھا کام کرنا ایک جشن بن جاتا ہے نہ کہ فرض اور یہی ان کا راز ہے۔ اسی لیے انڈیا میں کسانوں کے احتجاج کے دوران سکھوں نے پولیس والوں کو بھی کھانا کھلایا۔
باہر سے یہ سیوا بےلوث خدمت لگتی ہے مگر اصل میں اسے کرنے والے اپنی دلی خوشی تلاش کر رہے ہیں۔ اور یہ حل جتنا سادہ ہے اتنا ہی شاندار بھی ہے۔