بلاگ

امریکہ اور چین کے درمیان اسلحے کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہوچکا ہے

جون 2021 میں امریکی فضائیہ نے انکشاف کیا تھا کہ ‘سکستھ جنریشن’ (چھٹی نسل) کے لڑاکا طیاروں میں ‘نیکسٹ جنریشن ائیر ڈومیننس’ (این جی اے ڈی) کے شاہکار سسٹم کا استعمال آنے والے دس سال کے عرصے میں شروع ہو جائے گا

امریکی فضائیہ (یو ایس اے ایف) کے چیف آف سٹاف جنرل چارلس کیو براؤن جونیئر نے ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ یہ نیا اور جدید ترین لڑاکا طیارہ ایف 22 ‘ریپٹر’ کی جگہ لے گا اور یہ بیک وقت کئی طرح کے کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مالی سال 2022 کی بجٹ گزارشات کے سلسلے میں گذشتہ روز فضائیہ کے سربراہ نے بتایا کہ اس لڑاکا طیارے کا بنیادی مقصد فضاؤں میں امریکی غلبے یا برتری کو قائم رکھنا ہوگا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ جنگی جہاز زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت سے بھی لیس ہے۔

سکستھ جنریشن لڑاکا طیارہ ’فضا سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے تاکہ اوّل، یہ اپنی بقا کو یقینی بنائے اور فضائیہ کے ہمارے کمانڈرز اور مشترکہ فوج کو بھی’ آپشنز ‘فراہم کرے۔‘

براؤن نے یہ بھی کہا کہ’ این جی اے ڈی’ فائٹر سے ایف 22 کا دائرہ کار وسیع ہو گیا ہے اور اس میں زیادہ مقدار میں اسلحہ یا ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی موجود ہے جس سے اس کی ‘انڈو پسیفک’ (بحرہند، ایشیا سے آسٹریلیا اور مشرقی امریکہ کے ) خطے تک طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔

این جی اے ڈی’ کا ہمیشہ سے ’فیملی سسٹمز‘ (خاندانی نظام) کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے جسے ممکنہ طور پر بغیر پائلٹ جہازوں کے دستے کے ساتھ دشمن کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو تباہ کرنے، الیکڑانک حملہ جیسے مشن انجام دینے اور اضافی ہتھیار چلانے والی مشین کے طورپر بروئے کار لایا جانا ہے۔ لیکن امریکی فوجی حکام کہتے ہیں کہ اس کا بنیادی نظام طیارے کا ہی ہے۔

انڈوپسیفک ریجن میں چینی فضائیہ اور زمین سے زمین پر مار کرنے والی میزائل فورس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ ہتھیاروں کے اس نظام کی منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہے۔

چیف آسف سٹاف برائے سٹریٹیجی، انٹیگریشن اور ریکوآئیرمنٹس لیفٹیننٹ جنرل ایس کلنٹن ہائی نوٹ نے مئی کے مہینے میں کہا کہ جدید چینی جہازوں اور طویل فاصلے پر مارکرنے والے میزائلوں کے ‘نیکسٹ جنریشن چیلنج’ کے بارے میں ’جتنا ہم نے سوچا تھا، یہ اس سے قریب ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دور تک مار کرنے والے لڑاکا طیاروں کو سامنے لانا ’ٹرانسپرنسی‘ مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد کانگریس کو چین کی طرف سے لاحق خطرے سے خبردار کرنا اور ایک ایسی فورس کی طرف تیزی سے بڑھنے کا احساس دلانا ہے جو اس صورتحال سے نمٹ سکے۔

ہائی نوٹ نے کہا کہ ’یقینا ایسا وقت نزدیک آرہا ہے جہاں جے 20 جیسے جدید ترین میزائل امریکی فضائیہ کی برتری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘

جے 20 چین کا پہلا سٹیلتھ (ریڈار اور جدید آلات سے دکھائی نہ دینے والا) لڑاکا طیارہ ہے جو اس وقت میدان عمل میں استعمال ہورہا ہے۔
ہائی نوٹ نے کہا کہ اس (چینی طیارے) سے خطرہ لاحق ہے اور یہ کہ ’ہمیں اس کا توڑ کرنا ہوگا۔‘

چین کی فضائیہ کی اپنے امریکی ہم مناصب کے ساتھ الفاظ کی جنگ پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔

گذشتہ برس چین کے صف اوّل کے انگریزی اخبار گلوب ٹائمز نے شائع کیا کہ ’چین سکستھ جنریشن لڑاکا طیاروں کی عالمی دوڑ میں پیچھے نہیں رہے گا اور 2035 تک اپنے نیکسٹ جنریشن لڑاکا طیارے بنالے گا۔‘

چینی لڑاکا طیاروں کے ایک ممتاز ماہر وینگ ہیفنگ کا کہنا ہے کہ ’چین کے سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے 2035 میں معرض وجود میں آجائیں گے۔‘

وینگ ہیفنگ چینگدو ائیر کرافٹ ریسرچ اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ میں چیف آرکیٹیکٹ ہیں جنہوں نے جے 20 اور جے 10 کی تیاری میں بھی حصہ لیا۔جو ژیآن سے نیشنل ڈیفنس انڈسٹریز پرشائع ہونے والے آرڈیننس انڈسٹری سائنس ٹیکنالوجی نے جنوری میں رپورٹ شائع کی کہ سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے میں نئی خوبیاں شامل کی گئی ہیں جن میں ڈرونز کو ہدایات دینے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) اور ایروڈائینیمک (ہوا کی مزاحمت کم کرکے تیز پرواز کی صلاحیت والے) ڈیزائن کے ذریعے اعلیٰ سٹیلتھ صلاحیت شامل ہے۔
چین ان میں سے بعض فیچرز پسند کرے گا اور انہیں چینی ضروریات کے مطابق طیارے میں شامل کرے گا۔

دونوں سپر پاورز کی فضائیہ کی جانب سے سکستھ جنریشن لڑکا طیاروں کی تیاری کے بارے میں پاکستانی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے تجزیہ کار شاہد رضا نےکہا کہ چین کے پانچویں جنریشن کے جے 20 طیاروں کی سیریل کی حالیہ تیاری کے بعد امریکی فضائیہ خاص ارادے اور مقصد سے یہ طیارہ تیار کررہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چین جیسے امریکہ کے روایتی حریف کے مقابلے میں اس طیارے پر سکستھ جنریشن ٹیکنالوجی کا استعمال فضائی غلبہ یا برترقی حاصل کرنے کے یے ہے۔

شاہد رضا نے کہا کہ ’یہ طیارہ زیادہ طرح امریکہ کے اندر ہی تعینات ہوگا تاہم کشیدگی بڑھنے کے دنوں میں سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے انڈو پسیفک ریجن میں تعینات کیے جا سکتے ہیں تا کہ چین کے ساتھ طاقت کے توازن کو بگاڑا جاسکے۔ لیکن اس کے نتیجے میں چین کی طرف سے سکستھ جنریشن پلیٹ فارم(طیاروں) کی تیاری کا آغاز ہوسکتا ہے۔‘

نئی ٹیکنالوجی جنوبی ایشیا کے خطے یا پاکستان کو زیادہ متاثر نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹیکنالوجی خدشات کی بنا پر امریکی حکومت ہوسکتا ہے کہ سکستھ جنریشن ٹیکنالوجی بھارت سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ نہ بانٹے جیسا کہ امریکہ نے اپنے قریب ترین حلیفوں کے لیے بھی ایف/ اے 22 ریپٹر طیارے کی برآمد پر پابندی لگائی گئی۔‘

ایک اور پاکستانی ماہر اور’ پی اے ایف’ (پاک فضائیہ) کے سابق ہوا باز قیصر طفیل نے بتایا کہ سکستھ جنریشن طیارہ ’ایف۔22 کے ساتھ تیز یا سست رفتار کے امتزاج سے ‘بڑا’ کردار ادا کرے گا، جیسا کہ’ ایف۔15، ای’ نے ایف سولہ کے ساتھ مل کرانجام دیاتھا۔
’این جی اے ڈی’ کی لاگت انتہائی زیادہ ہے ،ایک طیارے پر آنے والے خرچے کے حوالے سے اور دوسرا اس کی مدت (زندگی) کے لحاظ سے بھی، لہذا’ پی اے ایف’ اس کا خریدار نہیں، حتیٰ کہ سیاسی طورپر اس کی خریداری میں اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تب بھی۔
’امریکی فضائیہ کے انتہائی جدید ترین فرنٹ لائن (ہراول) طیارے کے طورپر اسے نیٹو ممالک (نہ ہی بھارت) کو با آسانی برآمد کیے جانے

کا امکان ہے۔ لہذا بظاہر یہ ہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا سے متعلق نہیں ہوگا جب تک کہ خطے میں کوئی بڑی جیوپولیٹیکل تبدیلی نہ آجائے۔‘

یہ بھی پڑھیں : پاکستان اوربھارت مزید فوجی کارروائی سے گریز کریں: امریکی وزیر خارجہ

امریکی فضائیہ کے سربراہان نے مالی سال 2022 بجٹ میں گزارشات پیش کرنے کے موقع پر کہا کہ اس لڑاکا طیارے کا بنیادی کردار فضائی غلبہ یا اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہو گا لیکن اس میں زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہوگی۔

 

سکستھ جنریشن طیارہ ’زمین پر مار کرنے کی بھی کچھ صلاحیت رکھتا ہے، اوّل، یہ اپنی بقا(تباہی سے ) یقینی بنا سکتا ہے، لیکن یہ فضائی حصے کے کمانڈرز اور مشترکہ افواج کے لیے آپشنز بھی فراہم کرتا ہے۔

براؤن نے یہ بھی کہا کہ ایف۔22کے مقابلے میں ‘این جی اے ڈی ‘لڑاکا طیارے کا دائرہ کار وسیع ہوجائے گا اور یہ زیادہ مقدار میں ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے جس سے انڈو پسیفک ریجن میں دور فاصلے تک کارروائی کرسکتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع نے بجٹ 2022 کے لیے اپنے مطالبات زر شائع کیے ہیں جس میں ‘این جی اے ڈی’ کے لیے وسائل مانگے ہیں۔

امریکی فضائیہ 1.5 ارب امریکی ڈالر مانگ رہی ہے تاکہ’ این جی اے ڈی’ منصوبے کو آگے بڑھا سکے، ماضی کے مقابلے میں یہ رقم تقریبا 623ً ملین (62 کروڑ30 لاکھ) امریکی ڈالر زیادہ ہے۔

ائیر فورس اپنی کچھ موجودہ قوت کو ختم (ریٹائر) کر کے بچت کر سکتی ہے جسے نئے طیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ایسے طیارے جو چین جیسی مدمقابل بڑی قوت کو شکست دینے اور خوفزدہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں‘

انھوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم آج یہ قدم اٹھانے میں ناکام رہے تو یہ’موہوم امکان‘ بڑھ جائے گا کہ چین مستقبل میں کسی فضائی جنگ میں امریکہ کو شکست دے سکتا ہے۔
‘نیکسٹ جنریشن ائیر ڈومیننس سسٹمز'(جدید نسل کے جدید ترین لڑاکا طیارے) ‘وائلڈ کارڈ’ (ناقابل پیشگوئی یا اچانک) کے طورپر فضائیہ کے جنگی جہازوں میں شامل ہوں گے۔ امریکی مالی بجٹ 2022 میں 1.5 ارب امریکی ڈالر سے زائد وسائل کی اس کے لیے مانگ کی گئی ہے، اس پروگرام کا زیادہ تر حصہ خفیہ ہے۔

روپر نے یہ بھی کہا کہ’ این جی اے ڈی’ کا تصور یہ ہے کہ تیزی سے ایسا ڈیزائن تیار کیا جائے اور’ڈیجیٹل تھریڈ’ (جدید مواصلاتی نظام) کے ذریعے میدان میں موجود طیاروں کو استعال میں لایا جائے لیکن محدود مقدار میں شاید 50 سے 100 تک۔ ٹیکنالوجی کو جدید اور تازہ رکھنے کے لیے نئی شمولیت یا مسابقت کا حامل ڈیزائن (طیارہ) پانچ سے بارہ سال کے اندر فیلڈ میں ہوگا اور پرانے ماڈل ریٹائر ہو جائیں گے۔‘

امریکی فضائیہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ’ این جی اے ڈی’ میں دو تبدیلیاں یا ملٹی ائیر کرافٹ کنفیگریشن ہیں ایک، پسیفک تک زیادہ طویل فاصلے تک، دوسرا یورپئین تھیئیٹر کے نسبتاً کم فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close