اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
مغربی دنیا ہمیشہ اسرائیل کو ایک جدید اور پر امن ریاست کے طور پر پیش کرنے میں تمام حربوں کو استعمال کرتی رہی ہے
اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے ممالک جہاں ایک طرف فلسطینی عوام کو امن کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ اپنے ممالک کی عوام کو معاشی امن اور معاشی ترقی کے نام پر بھی اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
غاصب صہیونیوں نے سنہ1948ء میں فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط جماتے ہوئے اسرائیل نامی سرطان کو جنم دیا تھا جسے آج دنیا بھر میں غاصب ریاست کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ سنہ1948ء کے نکبہ کے بعد فلسطین کی تاریخ میں سنہ2021ء تک کئی بار نکبہ کی تاریخ دہرائی جاتی رہی ہے۔
دنیا میں امن قائم کرنے کا نام نہاد ٹھیکیدار امریکہ روز اول سے ہی غاصب ریاست کا سرپرست رہا ہے اور امریکہ کی کوشش سے ہی مغربی دنیا نے ہمیشہ اسرائیل کو ایک جدید اور پر امن ریاست کے طور پر پیش کرنے میں تمام حربوں کو استعمال کیا ہے۔
ترکی، مصر اور اردن کی جانب سے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کئے جانے کے بعد اب گذشتہ چند سالو ں میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ مغربی دنیا پوری طرح سے کوشش کر رہی ہے کہ عرب دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار کئے جائیں۔اس غرض سے چند ممالک جن میں عرب امارات، بحرین، سوڈان، مراکش وغیرہ شامل ہیں۔
حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان معاہدوں اور دوستانہ تعلقات سے امن قائم کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یقینا انتہائی مشکل ہے۔
امریکی آشیرباد تلے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے عرب اور افریقی ممالک یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا مقصد قضیہ فلسطین کے لئے نرمی پیدا کرنا ہے۔ حالانکہ ستر سال کی تاریخ عیاں ہے کہ اسرائیل نے جنگوں اور دہشت گردی کے ذریعہ فلسطین پر قبضہ بڑھاتے ہوئے صہیونی بستیوں کی توسیع کی ہے اور آج تک ان تمام معاہدوں کے بر عکس عمل انجام دیا ہے جو ماضی میں فلسطین سے متعلق کئے گئے ہیں۔لہذا عرب اور افریقی دنیا کے ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کو یہ کہنا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے وہ فلسطینی عوام اور قضیہ فلسطین کو ریلیف دینا چاہتے ہیں یہ فلسطینیوں کے لئے تو کھلا دھوکہ ہے اور خود ان تعلقات قائم کرنے والے ممالک کے حکمرانوں کے لئے بھی دھوکہ کے مترادف ہے جو حقائق کو پس پشت ڈال کر امریکی آشیرباد کی خاطر اس گھناؤنے فعل کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کر کے سب سے بڑی تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا تھا جسے آج خود ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے ممالک جہاں ایک طرف فلسطینی عوام کو امن کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ اپنے ممالک کی عوام کو معاشی امن اور معاشی ترقی کے نام پر بھی اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گذشہ چند سالوں میں مغربی دنیا نے غرب ایشیائی ممالک میں معاشی امن کی اصطلاح کو پروان چڑھا کر اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات استوا ر کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔سنہ 2019ء میں بحرین کے دارلحکومت منامہ میں ہونے والی اقتصادی امن کانفرنس بھی اسی کڑی کا ایک تسلسل تھاجس کا مقصد عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ نام نہاد اقتصادی امن کے چنگل میں کھینچ لایا جائے۔ یہ ایک بہت ہی گہری سازش تھی۔
اگر غاصب ریاست کے عہدیداروں کی جانب سے اقتصادی امن کے نعروں کا جائزہ لیا جائے توان کے نعروں اور ان کی منصوبہ بندی میں کسی بھی مقام پر فلسطین کی بات ہی موجود نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فلسطین کے پڑوس اور گرد ونوا ح میں موجود عرب ریاستوں نے اسرائیل کو اپنا پیشوا تسلیم کر لیا ہے اور فلسطین کو فراموش کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کے عوض امن کے حصول کے سوال پراگر بات کی جائے تو ماہرین سیاسیات اور ماہرین بین الاقوامی تعلقا ت کہتے ہیں کہ اسرائیل کی ستر سالہ تاریخ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب، مکاری اور ظلم و جبر ک داستانوں سے بھری پڑی ہے۔جب جب بھی بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے ساتھ امن کے لئے کوئی معاہدہ کیا گیا ہے بدلے میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر مزید ظلم اور جبر کے پہاڑ ہی ڈھائے ہیں۔
لہذا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح جو بھی عرب اور افریقی یا خطے کی غیر عرب ریاستوں کے حکمران یہ سو چ کر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر رہے ہیں کہ ان تعلقات کے عوض امن قائم ہو سکتا ہے یہ کھلا جھوٹ ہے۔ایسا ہونا ہر گز ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے نہ صرف فلسطین کے لئے امن فراہم نہیں کر سکتے بلکہ عنقریب آنے والا وقت یہ ثابت کرے گا کہ یہ تعلقات خود ان کے اپنے اقتدار اور ان کی ریاستوں کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔
حقیقت میں فلسطین کے معاملہ میں امن نہیں بلکہ انصاف کا تقاضہ کیا جانا چاہئیے۔یہ مسئلہ امن قائم کرنے سے زیادہ انصاف کی فراہمی مسئلہ ہے۔ اگر مسئلہ فلسطین میں انصاف کی فراہمی کو مرکز قرار دیا جائے تو پھر انصاف کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے۔ہر اسی فلسطینی کا وطن ہے جو سنہ1948ء میں سرزمین مقدس فلسطین کا شہری تھا جس میں غیر صہیونی یہودی جو باہر سے نہیں آئے تھے، عیسائی اور مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے فلسطینی شامل ہیں۔
انصاف کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ جو بھی یہودی صہیونی فلسطین میں باہر سے آ کر قابض ہوئے ہیں وہ سب اپنے وطن کو جائیں، جن فلسطینیوں کو ان کے اپنے وطن سے جبری جلاوطن کیا گیا ہے ان کو واپس لایا جائے۔
افسوس ہے ان عرب حکمرانوں پر کہ جو خود بھی دھوکہ میں ہیں اور فلسطینی عوام کو بھی دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔عنقریب اسرائیل کا شر ان کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور اس وقت تک بہت دیر نہ ہو جائے۔
لہذا ابھی وقت ہے کہ عرب و افریقی ممالک کی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لے کر فلسطین کے ساتھ کسی بھی قسم کی خیانت کے مرتکب ہونے سے بچا لیں کیونکہ تاریخ کبھی خیانت کاروں کو معاف نہیں کرتی اور آنے والی نسلیں زمانہ در زمانہ ان خیانت کاروں پر ملامت ہی کریں گی۔