پرائز بانڈ جائز ہیں یا نہیں، خریدنے سے پہلے اس کی شرعی حیثیت جان لیں
لاہور: پرائز بانڈ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ غیر شرعی کاروبار ہے اور اس پر جوانعامی رقم قرعہ میں نکلتی ہے وہ بھی ناجائز ہے۔اس پرکئی طرح کے شرعی تحفظات کا اظہار کیا جاتارہا ہے کہ اسلام قرعہ اندازی میں حاصل ہونے والی رقوم کو مشتبہ قرار دیتا ہے ۔کچھ اسکو جوا بھی کہتے ہیں لیکن پرائزبانڈ کی جامع تشریح سے بہت کم مسلمان آگاہ ہیں۔اس ضمن مین ممتاز عالم دین مفتی عبدالقیوم ہزاروی نے پرائز بانڈز کی شرعی حیثیت پر کھل کر جواب دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پرائز بانڈ خریدنا اور اس پر انعام حرام نہیں۔کیونکہ حکومت اپنی مختلف پیداواری یا غیر پیداواری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عوام سے پیسہ قرض لیتی ہے، بعض سکیموں میں متعین منافع دیتی ہے۔
انعامی بانڈز وہ تمسکات ہیں جن کے ذریعے حکومت لوگوں سے روپیہ وصول کرتی ہے اور دینے والوں کو ترغیب کی خاطر، اس مال کو تجارتی و صنعتی مقاصد میں لگاتی اور منافع کماتی ہے۔ کھاتے داروں کی دلجوئی اور ترغیب کی خاطر حاصل ہونے والے منافع میں سے انتظامی اخراجات منہا کرکے باقی کی کچھ رقم قرعہ اندازی کے ذریعے کھاتے داروں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ کسی کو ملتا ہے کسی کو نہیں ملتا، البتہ اصل زر محفوظ رہتا ہے۔ ہر چند کہ اس صورت میں قباحت ہے کہ بعض کھاتے دار منافع سے محروم اور بعض متمتع ہوتے ہیں، جبکہ سرمایہ سب کا لگا ہوا ہے، تاہم اس خرابی کے باعث چونکہ یہ جوا یا سود نہیں لہذا جائز ہے۔