سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی پہلی ریاست نہیں ہے، جس نے تیل کی خریداری کے لیے امریکی ڈالر ترک کرنے پر غور کیا ہے۔
سعودی عرب اور چین برسوں سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، سعودی عرب تیل کی خریداری کے لیے چین کی کرنسی قبول کرنے پر غور کر رہا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور چین تیل کی فروخت کی قیمت امریکی ڈالر کے بجائے چین کی کرنسی یوآن میں کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ بات چیت چھ سالوں سے ہو رہی ہے، لیکن حال ہی میں مملکت کے لیے امریکی سلامتی کے وعدوں کے بارے میں سعودی خدشات کی وجہ سے "تیز” ہوئی ہے۔
رپورٹ میں میں کہا گیا کہ سعودی رہنماء یمنی خانہ جنگی، ایران جوہری معاہدے کیلئے مذاکرات اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے مؤقف پر ناراض ہیں۔
سعودی عرب اور امریکہ نے 1970 کی دہائی میں تیل کی فروخت کی قیمت امریکی ڈالر میں طے کرنے پر اتفاق کیا، جس سے ڈالر کو دنیا بھر میں غالب ریزرو کرنسی کے طور پر قائم کرنے میں مدد ملی۔
اگر سعودی عرب یوآن میں ادائیگیاں قبول کرتا ہے تو اس سے ڈالر کی بالادستی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا اثر کم سے کم ہو سکتا ہے۔
امریکہ – سعودی کشیدگی اور یوکرین پر روسی حملے نے تیل کی عالمی منڈی پر بڑا اثر ڈالا ہے۔ گزشتہ ہفتے، سعودی عرب کے خلیجی اتحادی متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ وہ پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک (OPEC) اور روس کی طرف سے توثیق شدہ سپلائی میں بتدریج اضافے کی پابندی کریں گے۔
بائیڈن انتظامیہ عالمی تیل پیدا کرنے والوں سے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے پیداوار بڑھانے کے لیے کہہ رہی ہے۔ سعودی عرب جو کہ اوپیک میں سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، نے اب تک انکار کیا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی پہلی ریاست نہیں ہے، جس نے تیل کی خریداری کے لیے امریکی ڈالر ترک کرنے پر غور کیا ہے۔ صدام حسین کے دور میں عراق نے 2003 کے حملے سے پہلے تیل کی قیمت ڈالر کے بجائے یورو میں کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیبیا کے حکمران معمر قذافی نے بھی 2009 میں تیل خریدنے کے لیے سونے کے استعمال کی تجویز پیش کی تھی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور چین کئی سالوں سے اقتصادی طور پر قریب آ رہے ہیں۔ حال ہی میں، سعودی تیل کی بڑی کمپنی آرامکو نے گزشتہ ہفتے چین میں ایک بڑی ریفائنری کی تنصیب پر اتفاق کیا تھا۔