کراچی: ڈیفالٹ کا خطرہ بالکل نہیں اور میں ثابت کرسکتا ہوں پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سیاسی گیم اسکورنگ کرکے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تین ماہ سے وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہوں اور ہر وقت ڈیفالٹ کی باتیں سنتا ہوں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا ڈیفالٹ ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے، ملکی زرمبادلہ ذخائر کم ہیں مگر ڈیفالٹ کا خطرہ بالکل نہیں اور میں ثابت کرسکتا ہوں پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں بھی معاشی حالات انتہائی ابتر تھے اور تین سال کے عرصے میں معیشت کھڑی کر دی، پاکستان 2013 میں بھی ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا مگر بہتر معاشی اقدامات سے باہر آگئے تھے۔
اسحاق ڈار نے اعتراف کیا کہ پاکستان اس وقت معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہے جس کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، کیپیٹل مارکیٹ کی بہتری کے لیے چیئرمین ایس ای سی پی کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر کو ذمہ داری سنبھالتے ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج اور ایس ای سی پی کو فوکس کیا لیکن بدقسمتی سے ایس ای سی پی میں سالوں سے کمشنرز تعینات ہی نہیں تھے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے ملکی معیشت کو بہتر سمت لے جایا جا سکتا ہے، دنیا کی پانچویں اسٹاک مارکیٹ اس وقت انتہائی مشکل میں ہے اور خواہش ہے اسٹاک مارکیٹ کا گولڈن دور واپس آئے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کیلئے ایف بی آر کی پالیسی کو بھی نرم کیا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے کوئی سونا تو کوئی ڈالر خرید رہا ہے، ہمیں لوگوں کو اس ڈر سے نکالنا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی معاشی ترقی دنیا دیکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 31ارب ڈالر کا بندوبست کرنا ہے، توانائی بحران کی وجہ سے ایکسپورٹ متاثر ہوئی ہے، اسٹیٹ بینک نے کل رات امپورٹ سے متعلق نیا سرکلر جاری کر دیا ہے جس میں امپورٹ پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیا گیا ہے، شق 87، 85 اور 84 ختم کرکے امپورٹر کو ریلیف دے دیا ہے جبکہ توانائی، فارما اور اسپیئر پارٹیس کی امپورٹ پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئی ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے، فارن اکاؤنٹس میں سرمایہ کاری اور فارن ایکسچینج کا باہر جانا تشویشناک عمل ہے، ایس ای سی پی کو اس مسئلے پر ہدایت کی ہے، ڈالر اور کھاد کی اسمگلنگ کے لیے سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ پلان بنا لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قدر اس وقت بلند ہے لیکن روپے کی بے قدری بہت بڑا مسئلہ ہے اور مجھ سے پہلے جو تجربے ہوئے اسکا میں ذمہ دار نہیں، تین ماہ سے پہلے جو معاشی تجربے ہوئے اسکا میں نہیں حکومت ذمہ دار ہے، پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور مستحکم رکھنا حکومت کی بہتر پالیسی کا نتیجہ ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 35 سو ارب روپے کی چھ سال میں ضرورت ہے، پانچ ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کیا ہے جبکہ پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔