بیرونی ادائیگیوں کے لیے 4 ماہ میں 6 ارب ڈالر کی ضرورت
اسلام آباد: حکومت کو بیرونی ادائیگیوں میں 6ارب ڈالر کاکم ازکم متوقع خلا پر کرنا ہے جبکہ بین الاقوامی اداروں اورڈونرز کی جانب سے 26ارب ڈالر کے قرضوں و گرانٹس دینے کی یقین دہانی کے باوجود بڑے انفلوز کی امید نہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے ہفتہ کو ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگرچہ وزارت خزانہ نے وفاقی کابینہ سے یورو بانڈ کے اجرا کی سمری واپس لے لی ہے تاہم یہ آپشن اب بھی ٹیبل پر موجود ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے آئندہ 4 ماہ میں بیرونی انفلوز کی پوزیشن کا جائزہ لینے کے لیے اس ہفتے کئی داخلی میٹنگز کیں تاہم نتائج حیران کن نہیں تھے، اقتصادی امور ڈویژن کی پیش گوئیوں میں روایتی قرض دینے والوں کی جانب سے غیرملکی انفلوز میں کوئی غیرمعمولی اضافہ دکھائی نہیں دیتا، آئندہ 4ماہ کے اندر کم سے کم متوقع مالیاتی خلا6ارب ڈالر ہے اور وزارت خزانہ پہلے ہی گزشتہ ماہ گرتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے لیے مزید تجارتی قرضے لے چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق 2 بڑے لینڈرز ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی جانب سے انفلوز بجٹری تخمینوں سے بھی کم رہنے کی توقع ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے بڑے اقتصادی اشاریوں میں ابتری کی وجہ سے کوئی بجٹری سپورٹ دینے پسند نہیں کریں گے، ان کی جانب سے پروجیکٹ قرضوں کا انحصار ان اسکیموں پر پیشرفت پر منحصر ہو گا۔
واضح رہے کہ جنوری میں 5.6ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات کے بعد بیرونی صورتحال پہلے ہی نازک ہو چکی ہے، بڑھتے تجارتی بل سے لگتا ہے کہ درآمدات پر قابو پانے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی اور نان ٹیرف رکاوٹوں جیسے اقدامات کام نہیں آئے اور ایسا ہی ماہرین نے متنبہ کیاتھا، دسمبر کے دوران روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی بھی برآمدات میں حیران کن اضافہ نہیں کرسکی، اسٹیٹ بینک کے غیرملکی زرمبادلہ ذخائر 13.1 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو نومبر میں بانڈز کے اجرا سے پہلے موجود ذخائر سے بھی کم ہیں۔
ذرائع کے مطابق اقتصادی امور ڈویژن نے اے ڈی بی سے جون تک 55کروڑ ڈالر ملنے کا اندازہ لگایا ہے جس سے رواں سال کے لیے اس کی مجموعی قرض فراہمی 1 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہو جائے گی، اسی طرح ورلڈبینک کی قرض فراہمی اس سال 1 ارب ڈالر تک بھی نہیں پہنچ پائے گی، مالی سال کی پہہلی ششماہی میں پاکستان کو ورلڈ بینک سے 22کروڑ ڈالر سے کم ملے جبکہ سال بھر کے لیے اندازہ 1.04ارب ڈالر کا ہے، اسلامی ترقیاتی بینک اور چین کی جانب سے پروجیکٹ قرضے اندازوں کے مطابق رہنے کی امید ہے، اب تک چین نے 44 کروڑ 40لاکھ ڈالر اور آئی ڈی بی نے 75 کروڑ ڈالر دیے ہیں مگر چینی کمرشل قرضے اب بھی مل رہے ہیں۔
پاکستان سے بین الاقوامی کریڈیٹرز اور ڈونرز نے اس مالی سال کے اختتام تک 26 ارب ڈالر سے زیادہ فراہمی کے وعدے کیے تھے، اس میں 10ارب ڈالر کے وعدے کثیر جہتی اداروں، 12ارب ڈالر کے قرضے انفرادی ممالک کے علاوہ 4ارب ڈالر کی گرانٹس شامل ہیں۔
ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے بتایاکہ حکومت سستے بیرونی قرضے لینا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلیے روایتی کثیر جہتی شراکت داروں سے فراہمی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ بیرونی مالیاتی ضروریات فی الوقت زیادہ ہیں جو ساورین بانڈز سمیت دیگر آپشنز کے استعمال کی متقاضی ہیں۔ حکومت اس ہفتے 1ارب ڈالر مزید حاصل کرنے کیلیے یورو بانڈ جاری کرنے والی تھی مگر اس نے وہ سمری اچانک واپس لے لی جو وزارت خزانہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کیلیے پیش کی تھی۔
مفتاح اسماعیل نے کہاکہ یورو بانڈ کے اجرا کا آپشن اب بھی موجود ہے، امریکی ٹریژری ریٹس میں اضافے کے پاکستان کے قرضوں کی لاگت پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے پیش نظر وزارت خزانہ نے سمری واپس لی۔ نومبر میں پاکستان نے عالمی مارکیٹ سے 5سالہ سکوک اور 10 سالہ یورو بانڈ کے اجرا سے ڈھائی ارب ڈالر حاصل کیے تھے جن پر ریٹس بالترتیب 5.625 اور 6.875فیصد رہے تھے جو 10سالہ امریکی ٹریژری بینچ مارک ریٹ سے 455 بیسس پوانٹس زیادہ ہیں، اگر حکومت اس ہفتے یورو بانڈ جاری کرتی تو لاگت 7.10 فیصد تک پہنچ سکتی تھی، یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے حکومت کو اجرا روکنے پر مجبور کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس فوری دستیاب آپشن مختصر مدتی قرضوں کے حصول کا ہے جو گزشتہ ساڑھے4سال میں بھی اس کا فیورٹ رہا ہے، اس مدت میں فارن کرنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پی ایم ایل۔این کی حکومت یورو بانڈز کے اجرا اور تجارتی قرضوں کے ذریعے بھاری بھرکم 13.8ارب ڈالر حاصل کرچکی ہے، ان میں 6.9ارب ڈالر کے مہنگے غیرملکی تجارتی قرضے اور 7ارب ڈالر کے سکوک ویورو بانڈنوٹس شامل ہیں۔