امریکی ڈالر بلند ترین سطح پہ ، قیمت جان کر آپ بھی پریشان ہو جائیں
عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد مارکیٹس کھلنے کے بعد زرمبادلہ کی دونوں منڈیوں میں ہلچل برقرار رہی اور امریکی ڈالر نے اپنا سفر وہیں سے شروع کیا جہاں سے چھوڑا تھا جبکہ روپے کی قدر میں کمی روکی نہ جا سکی، منگل کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر تمام حدیں عبور کرنے کے بعد پہلی بار اوپن مارکیٹ میں بھی 124 روپے سے تجاوز کر گیا۔ ذرائع کے مطابق عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد مارکیٹس کھلیں تو ڈالر کی ڈیمانڈ نسبتاً کم دیکھی گئی مگر سپلائی اسے بھی پوری کرنے کے لیے ناکافی تھی، مرکزی بینک نے پہلے کی طرح مارکیٹ میں مداخلت نہیں کی، کمزور و محدود انفلوز اور گرتے زرمبادلہ ذخائر کی وجہ سے روپے کو کسی بھی جگہ سے سپورٹ نہ ملی جس کے نتیجے میں ڈی ویلیوایشن کا عمل نہ رک سکا اور انٹربینک مارکیٹ میں فاریکس ایسوسی ایشن کے مطابق ڈالر 122.30 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو عید سے قبل آخری ٹریڈنگ سیشن میں 121.60 روپے رہا تھا۔اس طرح ڈالر کی قدر میں 70 پیسے کا اضافہ ہوا تاہم اوسطاً ڈالر جمعرات کی 120.39 روپے قیمت سے 1.34 روپے بڑھ کر منگل کو 121.73 روپے کا ہوگیا، روپے کی اس تنزلی کا اثر اوپن مارکیٹ میں بھی ہوا جہاں ڈالر پہلی بار 124 روپے کی حد عبور کرگیا اور 124.50 روپے بھی ٹریڈنگ ہوئی تاہم کاروبار کے اختتام پر ریٹ 123.60 روپے رہا جو جمعرات کو 123 روپے کی قیمت سے 60 پیسے زیادہ ہے۔یاد رہے کہ پیر کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے سپورٹ ختم کرنے پر انٹربینک میں روپے کی قدر 4.13 فیصد گھٹ کر 120.39 روپے پر پہنچ گئی تھی، یہ دسمبر کے بعد سے روپے کی قدر میں تیسری بڑی تنزلی تھی۔مارکیٹ میں قیاس آرائیاں ہیں کہ ڈالر جلد 125 روپے کا ہوجائے گا جس کی وجہ درآمدات میں نمایاں اضافے اور برآمدات کی سست رو ریکوری کی وجہ سے بڑا تجارتی خسارہ اور ناکافی انفلوز کے نتیجے میں بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ گرتے ہوئے زرمبادلہ ذخائر اب 2ماہ کی درآمدی بل کی ادائیگی کے لیے بھی ناکافی ہیں جبکہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو دسمبر 2018ء تک اپنی مالی ذمے داریاں نبھانے کے لیے 5 ارب ڈالر اضافی درکار ہوں گے، یہ تمام عوامل روپے پر شدید دباؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ اس وجہ سے آئندہ چند روز میں روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ وجوہات سے دسمبر سے اب تک روپے کی قدر میں تقریباً 15 فیصد کمی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف نگراں حکومت زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے مقصد سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا امکان رد کرچکے ہیں، درآمدات کو کنٹرول کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے دیگر آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو کامیاب بنانا بھی شامل ہے۔کراچی چیمبر آف کامرس نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ منگل کو ڈالر نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جسے کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر اس کے پہلے سے ہی کمزور معیشت پر تباہ کن اثرات ہوں گے۔چیمبر کے صدرمفسر عطا ملک نے کہا کہ حکومت نے 6 ماہ کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں تیسری مرتبہ کمی کی ہے اور روپیہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے خدشہ ہے کہ ملک کو بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑسکتا ہے، ڈر ہے کہ ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی روپیہ اگلے چند ماہ میں مزید کمی کا شکار ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے برآمد کنندگان وقتی طور پر خوش ہوں گے اور ملکی معاشی اعداد و شمار برآمدات میں بہتری ظاہر کریں گے تاہم یہ بہتری صرف ڈالر کی قدر کے باعث ہوگی جبکہ برآمدات کا حجم وہی رہے گا، حقیقت یہ ہے کہ کاروباری لاگت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا کے کئی حصوں میں ہماری برآمدات تیزی کم ہورہی ہے، یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ڈالر کی بڑھتی قدر درآمدات اور برآمدات پر اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ برآمد کنندگان کو مہنگے درآمدی خام مال کی صورت میں زائد لاگت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ملکی معیشت کو مزید بحران کی طرف لے جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی اقدامات بشمول مختلف اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئیں تاہم پاکستانی درآمدات بے لچک ہی رہیں اور روپے کو کمزور کرنا مدد گار ثابت نہیں ہوسکے گا، درآمدات زیادہ تر خام مال پٹرولیم، کیمیکلز اور دھاتیں، دیگر سامان یا مشینری پر مشتمل ہیں، کسی بھی قسم کی ڈی ویلیو ایشن سے لاگت میں اضافہ ہوگا جس سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوگی۔کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اگر پٹرولیم قیمتیں جو پہلے ہی بہت زیادہ ہیں ان میں مزید اضافہ ہوا تو فیول پر چلنے والے تھرمل پاور جنریشن پلانٹس سمیت تمام مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوگا اس سے قبل کہ حالات مزید خراب ہوں حکومت کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی جیسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ دوسری صورت میں ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔