پاکستانیوں کوغصہ آتاہے جب امریکا کہتاہےکہ دہشت گردی کےخلاف جنگ کامعاوضہ نہیں دیا جائےگا۔ پچھلے ہفتے،امریکی انتظامیہ نےاعلان کیاکہ پاکستان کےلیے مزید 300ملین ڈالرامداد کی کٹوتی کی جائےگی۔ اس برس ،اب تک، امریکا نے پاکستان کے800ملین ڈالر کی امداد روک لی ہے۔
یہ وہ رقم ہے جو پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ سے ہر سال ملتی ہے۔پاکستان یہ رقم دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ہرسال آنےوالےاخراجات کی مد میں وصول کرتاہے۔ امریکا نے پاکستان کی رقم کی اس لئے کٹوتی کی کیوں کہ امریکا کاکہناہےکہ پاکستان نے اپنی سرزمین پرافغان عسکریت پسندوں کےخلاف کارروائی نہیں کی۔پاکستان نے اس الزام کی نفی کی ہے۔
اس امداد کی کٹوتی کا وقت انتہائی غیرموزوں ہےکیوں کہ پاکستان کےڈالر ذخائرخطرناک حد تک کم ہیں۔کچھ لوگوں کےلئے یہ بات عجیب ہے کیوں کہ عالمی طاقتوں سے رقم کی وصولی پرملےجلے جذبات پائےجاتےہیں۔ ہم دہشت گردی کےبارےمیں بھی ناخوش ہیں اور اس طویل مدتی جنگ سے بھی بےزارآگئےہیں۔
ڈالر کےبارےمیں ہماری تشویش اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس کےذخائر میں بےانتہا کمی ہوجاتی ہے۔ اس مرتبہ ہمیں جو صورتحال درپیش ہے وہ معاشی ماہرین کےنزدیک ادائیگیوں میں عدم توازن کے باعث ہے۔ اس کا یہ مطلب ہےکہ پاکستان کے پاس بیرونی ادائیگیوں کےلیے کم ڈالر موجود ہیں۔ مثال کےطورپر اسٹیٹ بینک کےپاس اکاؤنٹ میں 9.9 بلین ڈالر موجود ہیں مگر یہ دو ماہ کی درآمدات کی ادائیگیوں کےلیے کافی نہیں۔
پاکستان کو اپنے ڈالر کے ذخائرمیں اضافےکی ضرورت ہےتاکہ ضروری درآمدات کی ادائیگی کی جاسکے جن میں آئل اورمشینری شامل ہےتاہم معیشت چلائی جاسکے۔ اس کےعلاوہ ڈالر کی ضرورت اس لئےبھی ہے تاکہ بیرونی ادائیگیاں بھی کی جاسکیں اورملک کو دیوالیہ ہونےسے بچایاجائے۔ تاہم جس طرح کی صورتحال اب ہے،نئی حکومت آئی ایم ایف کےپاس جاکر بیل آؤٹ پیکج دوبارہ مانگ سکتی ہے۔
جیسا کہ اب امریکا نے ہمارے ڈالرز روک لئےہیں اور یہ ہماری معیشت کےحواس پر سوارہے۔کچھ لوگوں کاخیال ہےکہ ہم ہینڈ آؤٹس پر زیادہ ہی انحصار کرتےہیں۔
مگر، یہ سچ سے بہت دورہے۔
پچھلے 30 برسوں میں، پاکستان کے ڈالر ذخائر قابل ذکر حد تک اوپر گئےاور یہ امریکی امداد کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں امریکی امداد کاحصہ وقت کےساتھ کم ہوتارہا۔
مثال کےطورپر،مرکزی بینک نے2017 میں 15 بلین ڈالر اوسطا اپنے پاس رکھے۔ اس برس امریکا سے 558 ملین ڈالر کی امداد ملی،جواسٹیٹ بینک کے ذخائر کا3.7 فیصد حصہ تھا۔ یہ 1988 میں امریکی امداد کی اسٹیٹ بینک میں موجود ڈالر ذخائرسے زیادہ ہے۔
یہ امداد اس لیےذخائرسے زیادہ تھی کیوں کہ ڈالر کاپاکستان میں کیش فلو نہیں تھا بلکہ یہ وہ رقم ہے جو امریکا نےتیکنیکی تربیت اور امریکا سے ہی اسلحےکی خریداری کےلیےپاکستانی افواج کودی۔
یہ ڈیٹا ظاہر کرتاہےکہ اسٹیٹ بینک کے ڈالر ذخائر امریکی امداد کےمحتاج نہیں رہے،جیسا ہم سمجھتے آئےہیں۔
سوال یہ ہےکہ ہمارے پاس کم ڈالر کیوں ہیں، اس کا جواب ہماری کمزورمعیشت ہے۔
مثال کےطورپر سال 2008 میں ہمارے ڈالر کے ذخائر اس لیے کم ہوئےکیوں کہ تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تیل کی درآمدات کی ادائیگیوں کےلیے ہمارے اخراجات کا ایک تہائی حصہ ڈالرز میں چاہئے ہوتاہے۔ برآمدات میں کمی،بیرونی سرمایہ کاری کی قلت اور بڑھتی ہوئی درآمدات اس بات کی وجہ ہیں کہ بینک میں موجودہمارے ڈالرزکےذخائرکم ہوئےہیں۔ صورتحال اس قدر تشویش ناک ہےکہ معاشی ماہرین
یہ سوچ رہے ہیں کہ درآمدات پر پابندی لگائی جائے جن میں پنیر جیسی اشیاء بھی شامل ہیں تاکہ ایک ایک پائی بچائی جاسکے۔
ڈیٹا: اسٹیٹ بینک آف پاکستان، یوایس ایڈ اکنامک اینالیس