پاکستان نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے رابطہ نہیں کیا، آئی ایم ایف
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے معاشی بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں اب تک ہم سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے رابطہ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ ملک کو درپیش معاشی بحران حل کرنے کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ماہر معاشیات خبردار کر رہے تھے کہ موجودہ خراب صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بحران کے پیش نظر ملکی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چڑھے کھربوں روپے کے قرض کی ادائیگی اور درآمدات کی خریداری کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوگی۔
پیر کی رات وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی منظوری دے دی ہے تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اب تک ان سے رابطہ نہیں کیا۔
بالی میں جاری فنڈ کے سالانہ اجلاس کے دوران آئی ایم ایف کے اہم ماہر معاشیات مورس اوبسٹ فیلڈ نے کہا کہ پاکستان نے اب تک ہم سے باقاعدہ طور پر رابطہ نہیں کیا۔ آئی ایم ایف عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہم پوری توجہ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ وہ (پاکستانی حکام) ہم سے کب رابطہ کرتے ہیں۔
مورس اوبسٹ فیلڈ نے کہا کہ پاکستان کو مختلف شعبوں میں عدم توازن کا سامنا ہے، اس کا سالانہ خسارہ بہت زیادہ ہے، کرنٹ اکاؤنٹ بھی عدم توازن کا شکار ہے، ان کے ذخائر بھی بہت کم ترین سطح پر ہیں جبکہ کرنسی بھی غیرلچکدار اور اس کی مالیت اصل سے زیادہ ہے۔
عمران خان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے بعد ملکی روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے کو ملی اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 136روپے تک پہنچ گیا جہاں ایک دن قبل اس کی مالیت 124رروپے تھی۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہو بلکہ 1980 کی دہائی سے اب تک متعدد حکومتیں قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کر چکی ہیں۔
اب تک پاکستان آئی ایم ایف سے 12مرتبہ قرض لے چکا ہے اور آخری مرتبہ 2013 میں اسی طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت نے 6.6ارب ڈالر کا قرض لیا تھا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو موجودہ ابتر معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے کم از کم 12ارب ڈالر درکار ہیں لیکن حکومت آئی ایم ایف سے 6 سے 7 ارب ڈالر کا مطالبہ کرے گی۔