واشنگٹن: وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات و کفایت شعاری عشرت حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بڑا مسئلہ 15 سو ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں جانا ہے، ملک کے دفاعی اخراجات پر بہت زیادہ رقم خرچ نہیں ہوتی، صرف جی ڈی پی کا 3 فیصد استعمال ہوتا ہے۔
واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران عشرت حسین کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان 45 سو ارب کی جو کُل رقم جمع کرتا ہے، اُس میں سے 15 سو ارب قرض اتارنے میں چلی جاتی ہے’۔
عشرت حسین کے مطابق نئی حکومت آنے پر پاکستان کی برآمدات تقریباً ختم ہوگئی تھیں، امید ہے کہ رواں سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی سے قیمتیں بڑھیں تو درآمدات بھی کم ہوں گی۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ہمارا فنانسنگ گیپ زیادہ ہے، اس لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں قومی مفاد کو سامنے رکھا جائے گا اور اس کے بعد عالمی بینک اور دیگر اداروں سے بھی مدد مل سکے گی۔
عشرت حسین نے بتایا کہ پاکستان میں 35 لاکھ افراد میں سے 12 لاکھ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، ہمیں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب بڑھانا پڑے گا۔
وزیراعظم کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی کا اختیار ہونا چاہیے، اگر 20 لاکھ لوگ بھی ٹیکس ادا کرنے لگیں تو تناسب بہتر ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ 11 اکتوبر کو وزیر خزانہ اسد عمر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ سے ملاقات میں مالی مدد کی باضابطہ درخواست دی تھی۔
عمران خان کی حکومت کو اس سال اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر درکار ہیں تاہم حکومت اس پروگرام کو بیل آؤٹ پیکج کا نام نہیں دینا چاہتی۔
تاہم ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ہوسکتا ہے پاکستان کو قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے، مسائل کے حل کے لیے دوست ممالک سے رابطہ کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کے آئی ایم ایف سے ممکنہ گریز کی ایک وجہ سعودی دولت پر انحصار ہوسکتا ہے، اس مقصد کے لیے پاکستان سعودی وفد سے ملاقات کر رہا ہے اور ان سے توانائی کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے بھی بات چیت ہورہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب سے تیل کی تاخیر سے ادائیگی کے معاہدے کی بھی بات کی ہے جس پر غور جاری ہے۔