پاکستان اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) انسپکٹرز کے درمیان ہونے والے مذاکرات مکمل ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے وفد نے انسداد منی لانڈرنگ کیسوں میں جائیدادیں ضبط کرنے کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے انسپکٹرز فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ ایف اے ٹی ایف سے مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے اداروں نے اپنی رپورٹ تیار کرلی ہے اور یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جائے گی۔
ایف اے ٹی ایف انسپکٹرز جنوری میں اپنی سفارشات ایف اے ٹی ایف ہیڈکوارٹر میں دیں گے، سفارشات پرجون 2019 میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا نا نکلانے کا فیصلہ ہوگا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔ اس تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ میں شامل تھا۔