برآمدات میں بیرونی سرمایہ کی توجہ کیلئے فریم ورک تیار
کامرس ڈویژن نے برآمدی شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے بورڈ آف انوسٹمنٹ سمیت تمام متعقلہ اداروں کو ‘ٹریڈ ریلیٹڈ انوسٹمنٹ فریم ورک’ کے نام سے سرمایہ کاری ڈرافٹ جاری کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دستاویزات برآمدات سے متعلق شعبے میں سرمایہ کاری اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے تجاویز کے ساتھ ایک مفصل فریم ورک مہیا کر رہے ہیں۔
ڈان کو ایک ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ کامرس ڈویژن کو اس پالیسی پر ردعمل کا انتظار ہے اور اس حوالے سے بورڈ آف انوسٹمنٹ نے بھی تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
ڈرافٹ میں وضح کی گئی پالیسی میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اورحالیہ برسوں میں پاکستان کی سرمایہ کاری میں کارکردگی کو واضح کرتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کے درمیان ایک تنقیدی تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ کارمس ڈعیژن کی جانب سے یہ پالیسی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں گزشتہ 5 برس کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر تک ریکارڈ کی گئی جن میں سے 81 فیصد کا تعلق پیداوی شعبے کے بجائے توانائی، تیل و گیس، تعمیرات، مالی، آئی ٹی، ٹیلی کام، ٹرانسپورٹ اور تجارت سے متعلق تھی۔
برآمدای سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے ڈرافٹ میں لیبر ڈویژن سے وسائل کی تخصیص، جوتے، اور بیگز کے علاوہ ٹیکسٹائلزاور ٹیکنالوجی اسٹیل کی پیداوار سمیت دیگر شعبوں پر توجہ مرکز کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔
دستاویزات میں زرعی شعبے پر سرمایہ کاری بالخصوص جوس، مٹھائیاں، مچھلی اور خوردنی تیل پر سرمایہ کاری کی ضرورت کو بھی نمایاں کردیا گیا ہے اسی طرح آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمکل، آئی ٹی سی، ٹیلی کام، لی ای ڈی لائٹس اور سولر پینل پر درآمدی سرمایہ کاری بھی زور دیا گیا ہے۔
کامرس ڈویژن کے مطابق برآمدی سرمایہ کاری سے پیداوار اور مارکیٹ رسائی میں مسابقتی دوڑ میں اضافہ ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اسٹیٹ بینک سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں رواں مالی سال کے ابتدائی سہ ماہی میں 42 فیصد تک کمی آئی ہے جو گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں تنزلی کے مقابلے میں نصف تھی۔
مرکزی بینک کی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال 19-2018 میں جولائی سے ستمبر کے دوران گزشتہ برس کے 76 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 43 کروڑ 95 لاکھ ڈالر رہے، جبکہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو روکنے کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے۔