Featuredتجارت

غیرقانونی طور پر بیرون ملک رقم منتقلی کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں: اسد عمر

اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک رقم کی منتقلی اور اکتوبر 2013 سے جون 2018 میں مقامی و بیرونی ذرائع سے حاصل کیے گئے قرضوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وقفہ سوالات کے دوران وزیر خزانہ اسد عمر نے تحریری جواب جمع کرایا۔

وزیر خزانہ کے تحریری جواب میں کہا کہ 5 سالوں میں غیر قانونی طور پر منتقل رقم سے متعلق درست اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم دیگر ممالک میں پاکستانیوں کے اثاثوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔

تحریری جواب کے مطابق ایف بی آر ٹیکس قوانین کے اطلاق کے لیے دیگر ملکوں میں پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات لے رہا ہے اور دیگر ادارے بھی اثاثوں کی ریکوری پر کام کر رہے ہیں۔

اسد عمر کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اب 50 علاقوں سے بینک مالی اکاؤنٹس کی معلومات کے باہمی تبادلے کی حیثیت میں ہے۔

تحریری جواب کے مطابق او ای سی ڈی کامن رپورٹنگ اسٹینڈرڈ کے تحت پہلا ڈیٹا تبادلہ کی حیثیت میں ہے، اس فریم ورک کے تحت پہلا ڈیٹا تبادلہ 30 ستمبر 2018 کو ہوا جب کہ ایف بی آر اس ڈیٹا کی تطہیر کر رہا ہے۔

وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے اکتوبر 2013 سے جون 2018 میں مقامی اور بیرونی ذرائع سے حاصل قرضہ جات کی تفصیلات بھی پیش کیں۔

اسد عمر کے تحریری جواب کے مطابق مقامی ذرائع سے کل 6517 ارب روپے اوربیرونی ذرائع سے 44956 ملین ڈالر کے قرضے حاصل کیے گئے جب کہ آئی ایم ایف سے 5829 ملین ڈالر کے قرضے لیے گئے۔

تحریری جواب کے مطابق بیرونی کمرشل بینکوں سے 9938 ملین ڈالر سے قرضے لیے گئے، دو طرفہ ذرائع سے 7177 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے گئے۔

وزیر خزانہ کے مطابق اکتوبر 2013 سے آج تک 19799 ملین ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کیے گیے ہیں۔

اسد عمر کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ 11 اکتوبر کو آئی ایم ایف کی وفد سے ملاقات میں مالی امداد کے لیے درخواست کی گئی اور آئندہ ہفتوں میں آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔

وزیر خزانہ نے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا کہ 25 اکتوبر تک ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14.3 ارب ڈالر تھے، ان میں 7.8 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک اور 6.5 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس ہیں۔

تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ ‎24.5 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہچنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر نومبر 2016 سے زوال پزیر ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close