اسلام آباد: انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بنیادی معاشی پالیسی فریم ورک پروگرام پر معاہدے کی امیدوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سعودی عرب سے امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی رقم ایک یا 2 روز میں حاصل کرلے گا، جس سے ملک کے غیر ملکی زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے ڈان سے خصوصی طور پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) پیر (19 نومبر) تک پہنچ جائے گی، ’مجھے میرے سعودی ہم منصب نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے‘۔
امداد کا دوسرا اور تیسرا حصہ اگلے 2 ماہ میں موصول ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی معاونت کے لیے 6 ارب ڈالر کا پیکج دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس پیکج میں 3 ارب ڈالر بیلنس آف پیمنٹ سپورٹ اور 3 ارب ڈالر، تیل کی در آمدات میں تاخیری ادائیگی کی مد میں ملنے تھے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ تیل کی در آمد میں تاخیری ادائیگی کی سہولت اگلے ماہ سے ملنا شروع ہوجائے گی، تاہم وزیر خزانہ جنہوں نے موجودہ بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کا اس امداد اور چین سے ملنے والی امداد سے پورا ہونے کا عندیہ دیا تھا، نے چین سے ملنے والی امداد کے حوالے سے نہیں بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ چین کی جانب سے ملنے والی بے مثال امداد ہے، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس کی تفصیلات کو عیاں نہیں کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس وقت تفصیلات نہیں بتاؤں گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی واحد وجہ ہماری معیشت میں تیزی لانا اور کسی خلا کو پر کرنے کے لیے کسی قرض کی جانب نہ جانا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وہ قرض کی شرائط پر نہیں بلکہ ’وسیع معاشی اصلاحات پیکج‘ پر بات کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے فنڈنگ کوٹہ تقریباً 6 سے 6.5 ارب ڈالر کا ہے۔
وزیر خزانہ نے حکومت کی پہلے سال کا ہدف بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے اخراجات کو کم کرنے کے لیے بڑے اقدامات کیے گئے ہیں، ’ہم جون 2019 تک موجودہ خسارے کو کم کرکے 12 ارب ڈالر تک لے جائیں گے اور کمی تقریباً 7 ارب ڈالر کی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پیکج، بیلنس آف پیمنٹ کے خلا کے چھوٹے سے حصے کو پورا کرنے میں مدد دے گا۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے معاونت حاصل کر کے معیشت کو سیدھی سمت لے جانے پر کوئی دو رائے نہیں، مسئلہ صرف بوجھ بڑھنے کا ہے۔
اسد عمر نے بتایا کہ ’ہماری سمت واضح ہے کہ ہم بوجھ صرف زیادہ آمدن والے افراد پر ہی ڈالیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے معاہدے کے بنیادی حقائق اور فریم ورکس کا تبادلہ ہوچکا ہے، ’میں معاشی معاملات کے حل کے لیے آئی ایم ایف کے پیچھے نہیں چھپنا چاہوں گا‘۔
نجکاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس بنیادی ڈھانچے سے متعلق اصلاحات پر دو رائے نہیں کیونکہ ان کی حکومت نے 50 سے 60 سرکاری کمپنیوں میں سے 7 کی نشاندہی کی ہے جنہیں نجکاری کی جانی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایل این جی کمپنی کی بھی نجکاری کردی گئی تو اس کا اثر گزشتہ حکومت کے نجکاری پروگرام سے زیادہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تاہم اس کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے اسٹیل ملز کی انتظامیہ کو ملز کو پوری طرح سے چلانے کے لیے 45 دن میں جامع حکمت عملی تیار کرنے کا کہا ہے۔