مقتول کی موت کا بالکل ٹھیک وقت معلوم کرنے میں اہم کامیابی
کوپن ہیگن: کسی انسان کی موت کے 24 گھنٹے بعد پورے جسم کی بافتوں (ٹشوز) میں جینیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اس پورے پیٹرن کو سمجھتے ہوئے ماہرین نے وفات پانے والے کئی لوگوں کی موت کا اصل وقت معلوم کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔یہ معرکتہ الآرا تحقیق ہفت روزہ سائنسی جریدے نے 13 فروری کو شائع کی ہے جس میں اس عمل کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ہلاکت کا فوری مطلب جینیاتی موت نہیں ہوتا، مثلاً زیبرا فش اور بعض چوہوں کے جین مرنے کے چار دن بعد بھی سرگرم رہتے ہیں۔ موت کے بعد انسانی جسم کے بعض ٹشوز میں جینیاتی سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح ان تبدیلیوں کو دیکھ کر مرنے والے کے وقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس نئی تحقیق میں ڈی این اے کے ساتھ عمل کرنے والے آر این اے میں تبدیلیوں کو نوٹ کیا گیا ہے۔اس نئے عمل پر تحقیق کرنے والے نیچرل ہسٹری میوزیم آف ڈنمارک کے ماہر ٹام گلبرٹ نے بتایا کہ لوگ یہ غلط سمجھتے ہیں کہ آراین اے ایک کمزور اور غیرمستحکم مالیکیول ہے، لوگ سوچتے ہیں کہ موت کے بعد ڈی این اے بچ جاتا ہے اور آر این اے غائب ہوجاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔گلبرٹ نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ آراین اے موت کے بعد بھی سلامت رہتا ہے اور کئی ڈی این اے زندگی ختم ہونے کے بعد بھی معلومات کو آر این اے میں پہنچارہے ہوتے ہیں اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سارے کیمیکل اور ضروری اینزائم ختم نہ ہوجائیں۔ یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے کہ ابلتے پانی کا چولہا بند کرنے کے بعد بھی پانی تھوڑی دیر حرکت کرتا رہتا ہے اور اس کی سرگرمی دھیرے دھیرے ختم ہوتی رہتی ہے۔ماہرین نے اس کے لیے زندہ اور مردہ افراد میں جینیاتی اظہار (جین ایکسپریشن) کی شرح بھی نوٹ کی ہے اس کے لیے ماہرین نے مرنے کے بعد عطیہ کردہ 500 افراد کے دماغ، پھیپھڑوں، جلد اور ٹشو کے نمونوں کا جائزہ لیا۔ ان میں سے اکثریت کو گزرے ہوئے 29 گھنٹے ہوچکے تھے۔ ان میں ماہرین نے 4 اقسام کے ٹشوز کو پڑھا جس میں تھائی رائیڈ، پھیپھڑے، جلد کے نیچے کی چربی اور جلد پر پڑنے والی دھوپ کو نوٹ کیا گیا۔اس عمل کے نتائج پر ماہرین نے ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر بنایا جو آج نہیں تو کل مقتول کی وفات کا درست وقت بتا کر مجرموں کو سراغ لگانے میں مدد دے گا۔ اس طرح نو منٹ آگے یا پیچھے کے لحاظ سے یہ الگورتھم کسی موت کا درست وقت بتاسکتا ہے۔پوسٹ مارٹم کرنے والوں کے لیے یہ تکنیک انتہائی مددگار ثابت ہوسکتی ہے تاہم فوت ہونے والے شخص کے کئی عوامل اس کے جینیاتی اظہار پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ماہرین اب اسی چیلنج کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔