چین کا خوفزدہ کر دینے والا امتحان
چین کے نیشنل امتحان گاؤکاؤ میں 90 لاکھ طالبعلم حصہ لے رہے ہیں جس کے نتیجے پر اس بات کا دارومدار ہے کہ وہ کس یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں گے۔
اس لیے ان کے مستقبل کا فیصلہ یہ امتحان کرے گا۔ پہلی بار یہ کہاگیا ہے کہ جو اس امتحان نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا اس کو جیل ہو گی۔
گاؤکاؤ کیا ہے؟
اس بدنام زمانہ امتحان میں طلبہ کا ریاضی، چینی زبان اور انگریزی کے علاوہ طلبہ کے منتخب کردہ سائنس یا ہیومینیٹیز کےمضامین کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔
یہ امتحان 1950 کی دہائی سے تعلیمی نظام کا حصہ ہے اور اس میں خلل صرف کلچرل ریوولیوشن کے دوران آیا تھا۔
گاؤکاؤ میں ناکامی کا مطلب ہے کہ کم درجے کی نوکری اور خاندان کی مایوسی۔
گاؤکاؤ کے لیےتیاری میں بہت وقت صرف ہوتا ہے۔ سکستھ ٹون ویب سائٹ کے بقول تیاری کروانے والوں کو ’گاؤکاؤ نینیز‘ بولا جاتا ہے۔ یہ وہ سینیئر طلبہ ہوتے ہیں جو بہت پڑھے لکھے افراد ہوتے ہیں یا جنھوں نےحال ہی میں گریجویشن کی ہوتی ہے۔ وہ طلبہ کے ساتھ گھروں میں ہی رہتے ہیں اور ان کی تیاری کرواتے ہیں۔
ٹینسٹ فنانس کی رپورٹ کے مطابق ژاؤ یینگ نے شنگھائی یونیورسٹی سے حال ہی میں گریجویشن کی ہے۔ وہ طلبہ سے ساری رات بات کرنے اور ان کی تیاری کروانے کے 45 ڈالر فی کس روزانہ کے لیتے ہیں۔
گاؤکاؤ نینیز ایجنسی صائمہ ڈومیسٹک سروسز نے سکستھ ٹون کو بتایا کہ گاؤکاؤ نینیز ہر طلب علم کی مشکل کا حل نہیں ہیں۔
ہوٹل کے کمرے
گھر سے امتحانی سینٹر کا سفر کرنے سے بہتر ہے وہی وقت پڑھائی میں لگایا جائے اس لیے والدین بچوں کو امتحانی سینٹر کے قریب ہوٹل میں ٹھہرا دیتے ہیں۔
بہت سارے ہوٹل گاؤکاؤ پیکج دیتے ہیں۔ بیجنگ میں ہوٹل دو ہزار یوان روزانہ کے ریٹ سے چارج کرتے ہیں۔ اتنی زیادہ قیمت ہونے کے باوجود ہوٹلوں کے کمرے بُک ہوتے ہیں۔
بیجنگ کے ہونٹنگ ایسکریس ہوٹل کے سٹاف نے مقامی میڈیا کو بتایا ’حال ہی میں ہمارے پاس اتنی زیادہ بکنگ آئیں کہ ہم بکنگ کے بغیر کسی کو کمرہ نہیں دے سکے۔‘
امتحانی ٹیکسیاں
چین کے کئی شہروں میں ٹیکسیوں کو پیلے رنگ کے کارڈ دیے گئے جو وہ لہرا سکیں اور ان کو امتحانی سینٹر جلد پہنچنے کے لیے راستہ دیا جائے۔
چائنا ڈیلی کے مطابق فوجین صوبے میں ایک ٹیکسی کمپنی طلبہ کو امتحانی سینٹر پہنچنے کے لیے مفت ٹیکسی سروس بھی مہیا کرتی ہے۔
دوسری جانب شنگھائی میں ایک کمپنی کی ایک ہزار ٹیکسیوں کی چھ گھنٹوں میں بکنگ ہوئی۔
گاؤکاؤ مقدس جگہ
گاؤکاؤ کی تیاری کے لیے سب سے مشہور ہے ماؤتنچینگ۔ اس قصبے میں 20 ہزار طلبہ، جو کہ قصبے کی کُل آبادی سے چار گنا زیادہ تعداد ہے، ہر سال ماؤتنچینگ ہائی سکول میں گاؤکاؤ کی تیاری کے لیے آتے ہیں۔
چائنا یوتھ ڈیلی کے مطابق اس ہائی سکول میں تیاری کے لیے آٹھ ہزار ڈالر تک کی فیس لگتی ہے۔
اس سکول میں موبائل فونز اور لیپ ٹاپ لانے کی جازت نہیں ہے اور ان کے ہوسٹل کے کمروں میں بجلی کے آلات لگانے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ حکام اس عرصے میں قصبے میں کسی قسم کے تفریحی پروگرام بھی ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ طلبہ کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
دباؤ کو برداشت کرنا
ہم سب کا دل چاہتا ہے کہ ہم نصاب کی کتابیں پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیں لیکن چین میں گاؤکاؤ کے طلبہ میں یہ رواج ہے۔
تاہم اس سال حکومت نے ژیامن میں طلبہ کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اپنا ذہنی دباؤ مثبت طریقے سے کم کریں۔
طلبہ میں تربوز پھوڑنے کی عادت بھی کافی عام ہے۔
چین کے چونگ کنگ شہر میں دو ہزار طلبہ تربوز کی لڑائی کرتے ہیں اور کے لیے ہر طالبعلم ایک کلو تربوز خریدتا ہے۔ لیکن اگر کوئی طالب علم تربوز کی لڑائی میں دلچسپی نہیں رکھتا تو غباروں کو پھوڑنے سے بھی ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔
نگرانی
امتحانی کمروں میں نقل روکنے کے لیے سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ لیکن طلبہ نے خفیہ گھڑیوں سے ٹی شرٹ میں لگا خفیہ ٹرانسمیٹر تک نقل کرنے کی سب کوششیں کی ہیں۔
گذشتہ سالوں میں حکام نے واک تھرو گیٹس نصب کیے تاکہ ایسے آلات کی نشاندہی ہو سکے۔
لیکن اس سال نگرانی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ اس سال حکام کا کہنا ہے کہ جو نقل کرتا پکڑا گیا اس کو سات سال قید ہو گی اور تین سال تک کسی بھی نیشنل امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اتنی سخت سزا سے نقل کرنے کے رجحان میں کمی ہو گی۔
اس کے علاوہ قومی سطح پر ایسے وائرلیس آلات کے خلاف بھی مہم کا آغاز کیا گیا جو نقل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
طالب علم کی جگہ کوئی اور
کچھ والدین اپنے بچے کی جگہ کسی اور کو امتحان میں بٹھانےکے لیے کئی لاکھ یوان دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ یہ افراد اپنی اصل تصویر کے ساتھ جعلی شناختی کارڈ بنواتے ہیں جس پر طالب علم کی تفصیلات ہوتی ہیں۔
اگر ان طلبہ کو سر فہرست کی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جاتا ہے تو ان افراد کو 25 ہزار یوان تک دیے جاتے ہیں۔
حوصلہ افزائی
جب تمام حربے بے سود ہو جائیں تو پھر روایتی حوصلہ افزائی ہی کام میں لائی جاتی ہے۔
سٹیفن ہوکنگ نے سوشل میڈیا سائٹ ویبو پر اس سال گاؤکاؤ امتحان میں بیٹھنے والے طلبہ کو نیک تمناؤں کا پیغام دیا۔ یہ پیغام بہت جلد وائرل ہوا اور بہت سے صارفین نے اس پیغام کو سراہا۔