روشن راتیں آلودگی کا سبب کیسے؟
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی روشنی کی آلودگی کے شکار آسمانوں تلے زندگی گزار رہی ہے۔
سائنس ایڈوانسز نامی جنرل میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے کیسے زمین کی پیمائش اور سیٹلائٹ ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کا نقشہ بنایا جس میں یہ دیکھا گیا کہ دنیا کے کون سے حصے مصنوعی روشنی کے باعث روشن ترین دکھائی دیتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ سنگا پور، کویت اور قطر میں رات کے وقت آسمان سب سے زیادہ روشن نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس چاڈ، افریقن ریپبلکن اور مدگاسکر میں آبادیاں روشنی کی آلودگی کا بہت کم شکار ہو رہی ہیں۔
اگرچہ رات کے وقت زمین کی مصنوعی روشنی میں سٹریٹ لائٹس اہم جزو ہیں تاہم عمارتوں اور گھروں کی کھڑکیوں، گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس اور روشن بل بورڈز بھی مصنوعی روشنی میں شامل ہیں۔
زمین کے اس نقشے کے روشن حصے سے پتہ چلتا ہے کہ پوری دنیا کی 83 فیصد آبادی، یورپی ممالک اور امریکہ کی 99 فیصد آبادی اپنے ممالک میں آسمان کو 10 فیصد زیادہ روشن دیکھتی ہے۔
ڈاکٹر کیبا کا کہنا ہے کہ کچھ محققین کا کہنا خیال ہے کہ مصنوعی روشنی کا تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی 14 فیصد آبادی رات کےاندھیرے میں دیکھ سکنے کی قدرتی صلاحیت کو استعمال میں ہی نہیں لاتی۔
’رات بہت روشن ہوتی ہے اتنی کہ وہ دن کے وقت دیکھنے کی صلاحیت کو رات میں بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
سنگا پور کی پوری آبادی مصنوعیت روشنی کے اس انتھائی درجے میں زندگی گزارتی ہے اور کچھ ایسا ہی مسئلہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
یورپ میں 20 فیصد اور امریکہ میں 37 فیصد لوگ رات چیزوں کو دیکھنے کی قدرتی صلاحیت کو کو استعمال ہی نہیں کرتے۔
ڈاکٹر کیبا کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ برطانیہ میں 26 فیصد لوگ اندھیرے دیکھنے کی قدرتی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ رات کا قدرتی اندھیرا نہ ہونا رات کے وقت متحرک رہنے والے جانوروں کو متاثر کر رہا ہے۔ جبکہ انسان میں صورتحال سے نیند کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کیبا کا کہنا ہے کہ اگرچہ روشنی تحفظ، ترقی اور ٹیکنالوجی میں جدت کے لیے ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں سٹریٹ لائٹس میں سے بہت سی ایسی ہوتی ہیں جنھیں درست طریقے سے ڈیزائن نہیں کیا جاتا۔ یہ لائٹس ان علاقوں کو بھی روشن کرتی ہیں جہاں ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس لیے بہت اوپر آسمان پر ان کی واقعی ضرورت نہیں ہوتی۔