شمسی طیارہ نیویارک پہنچ گیا
شمسی توانائی سے چلنے والا جہاز سولر امپلس پینسلوینیا سے اڑ کر نیویارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے پر پہنچ گیا ہے۔
جمعے کی رات اڑنے کے بعد یہ جہاز جب نیویارک کی فضاؤں میں پہنچا تو اسے مجسمۂ آزادی کے قریب سے گزارا گیا تاکہ اس کی تصاویر لی جا سکیں۔
اس حالیہ پرواز سے اس جہاز کی بغیر ایندھن کے دنیا کا چکر لگانے کی مہم کا امریکی حصہ مکمل ہو گیا ہے۔ اب اگلے مرحلے کے طور پر اسے بحرِ اوقیانوس عبور کرنا ہے۔
جہاز مقامی وقت کے مطابق دو بجے مجسمۂ آزادی کے اوپر پہنچا۔
عین اسی لمحے پر ہواباز آندرے بورشبرگ نے سیٹلائٹ فون پر
بات کرتے ہوئے کہا: ’امریکہ ایسا ملک ہے جہاں آپ بہت سے سرمایہ کاروں اور پیش روؤں سے ملتے ہیں اس لیے مجسمۂ آزادی پر سفر ختم کرنا ایجاد کی آزادی کی روح کی نمائندگی کرنا ہے، اور یہی وہ روح ہے جو آپ کو اس ملک میں ملتی ہے۔
بورشبرگ کے ساتھی ہواباز برٹرینڈ پیکارڈ ہیں جو بحرِ اوقیانوس کے اوپر جہاز اڑائیں گے۔
اس بات کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا کہ جہاز کو کب سمندر کے اوپر سے گزارا جائے کیوں کہ سولر امپلس انتہائی ہلکا پھلکا طیارہ ہے، اور یہ تیز ہواؤں اور شدید موسمی حالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پرواز کے ڈائریکٹر ریمنڈ کلرک کہتے ہیں: ’اصل چیز صبر ہے۔‘ انھیں توقع ہے کہ اس سفر میں تین سے چار دن لگیں گے۔
ٹیم چارلز لنڈبرگ کے نقشِ قدم پر چل کر پیرس پہنچنے کی کوشش کرے گی جنھوں نے 1927 میں پہلی بار بحرِ اوقیانوس کے اوپر سے تنہا پرواز کی تھی۔ تاہم خدشہ ہے کہ موسم سولر امپلس کو جنوب کی طرف دھکیل دے گا اور وہ ممکنہ طور پر اٹلی کے شہر تولوس یا پھر سپین کے شہر سیویل میں اترے گا۔
سولر امپلس نے اپنا سفر گذشتہ سال ابوظبی سے شروع کیا تھا۔ تاہم بیٹریوں میں خرابی کی وجہ سے اسے دس ماہ ورکشاپ میں گزارنا پڑے تھے۔