ڈائنوساروں سے بچنے کے لیے رات کو دیکھنے کی صلاحیت
ممالیہ جانوروں کے اندر اندھیرے میں دیکھنے کی خصوصیت لاکھوں سال پہلے ارتقا پذیر ہوئی تھی۔
جینیاتی شواہد کے مطابق جوراسک زمانے کے ممالیہ جانوروں میں مدھم روشنی میں دیکھنے والے آنکھ کے خصوصی خلیے دراصل رنگوں میں تمیز کرنے والے مخروطی خلیوں سے ارتقا پذیر ہوئے۔
رات کو دیکھنے کی صلاحیت کو ممالیہ جانوروں کے ارتقا میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ اس طرح ممالیہ جانور دن کو فعال خطرناک شکاری ڈائنوساروں سے بچ کر رات کو زندگی گزارنے کے اہل ہو گئے۔
تحقیق کار ڈاکٹر ولیم ٹیڈ ایلسن کا تعلق کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی سے ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق کے بارے میں بتایا کہ رات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہونا دنیا میں ممالیہ جانوروں کے غلبہ پانے کی جانب انتہائی اہم قدم تھا۔
انھوں نےبتایا: ’ہم یہ دریافت کر رہے ہیں کہ کیسے ممالیہ جانور رات کو دیکھ پانے کی صلاحیت کی بدولت ڈائنورساروں سے بچنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی صلاحیت نے انھیں ارتقائی منازل طے کر کے مختلف انواع میں ڈھلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ صلاحیت دن کے وقت کام کرنے والے مخروطی خلیوں کے رات کو دیکھنے والے لمبوترے خلیوں میں تبدیل ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
یاد رہے کہ پردۂ بصارت میں دو اقسام کے خلیے ہوتے ہیں: کونز یا مخروطی خلیے جو رنگ دیکھنے کے کام آتے ہیں، اور راڈز یا لمبوترے خلیے جو مدھم روشنی میں کام کرتے ہیں اور رنگوں میں تمیز کرنے سے محروم ہوتے ہیں۔
کروڑوں برس پہلے ممالیہ اور ڈائنوسار ایک طویل عرصے تک اکٹھے رہے، اور چونکہ ڈائنوسار انتہائی خطرناک شکاری تھے، اس لیے ان سے بچنے کے لیے ممالیہ جانوروں نے اپنے اندر رات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کر لی کیوں کہ ڈائنوسار دن کو زیادہ فعال ہوتے تھے۔
نیشنل آئی انسٹیٹیوٹ کے آنند سوروپ کہتے ہیں: ’ممالیہ جانوروں کی اکثریت کے پردۂ بصارت میں زیادہ تر لمبوترے خلیے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم مچھلی، مینڈک یا پرندوں کو دیکھیں تو ان کی اکثریت میں مخروطی خلیوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ ارتقائی سوال پیدا ہوتا ہے، کیوں؟ آخر کیا ہوا؟‘
سائنس دانوں نے اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے چوہوں، زیبرا فش مچھلی اور دوسرے جانوروں کے ڈی این اے کا مطالعہ کیا۔ انھیں معلوم ہوا کہ ابتدائی ممالیہ جانوروں میں ایک قسم کے خلیے کو تبدیل کر کے اسے روشنی کے لیے بےحد حساس بنا دیا۔
البتہ انسان اپنی بصارت کے لیے مخروطی خلیوں پر زیادہ انحصار کرتا ہے، لیکن ایسا بہت بعد میں ہوا۔