تعلیم و ٹیکنالوجی

متنازع سائبر کرائم بل کا مسودہ قائمہ کمیٹی سے منظور

سینیٹ میں حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سائبر کرائم کے مسودے کی منظوری دی گئی۔

یہ بل قومی اسمبلی سے اس سال اپریل میں پاس کیا گیا تھا تاہم سینیٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس بل کو متعقلہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھا اور اس میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سے پاس ہونے کے بعد اس بل کو سینیٹ کے رواں اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے اور سینیٹ سے یہ بل منظور ہونے کے بعد اس بل کے مسودے کو دوبارہ قومی اسمبلی میں بھجوایا جائے گا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے منظور ہونے والے بل کے مسودے کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد پر 14سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔

اس کے علاوہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر سات سال سزا ہوگی۔

قائمہ کمیٹی سے پاس ہونے والے بل کے مسودے میں انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی۔

اس بل کے مطابق بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ جبکہ موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

اس بل کے مسودے کے مطابق انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا

اس بل کے مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سائبرکرائم قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔

اس بل میں کہا گیا ہے کہ ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے متعقلہ ممالک سے رجوع کیا جائے گا۔

اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی اور عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں ہو سکیں گی۔

اس بل سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے لوگوں کی آزادی رائے متاثر ہوگی تاہم ارکان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ اس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات کو دور نہیں کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close