جنگلی کوے آلات تیار اور استعمال کر سکتے ہیں‘
ان کووں کو ٹہنیوں کو ہُک کی شکل دے کر ان کی مدد سے درختوں کے تنوں کے اندر چھپی ہوئی خوراک کو باہر نکالتے ہوئے پایا گیا ہے۔
یہ تحقیق ’اوپن سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تکنیک کووں کے فطری رویے کا حصہ ہے۔
2002 میں نیو کیلیڈونیا کی ’بیٹی‘ نامی ایک مادہ کوے نے سائنس دانوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔
یونیورسٹی آف اوکسفرڈ کے تحقیق کاروں نے بیٹی کو خوراک کی ایک ٹوکری دکھائی جو اس کی پہنچ سے باہر تھی۔ اسے حاصل کرنے کے لیے بیٹی نے ایک تار کو ہُک کی شکل میں موڑ لیا۔ اس سے قبل کسی پرندے یا جانور کو آلات بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا۔
بیٹی 2005 میں مر گئی لیکن اس کے بعد یہ تجربہ تجربہ گاہ میں قید کئی دوسرے کووں میں دہرایا گیا۔
تحقیق کے مرکزی مصنف کرسٹین روٹز کا تعلق سکاٹ لینڈ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا تھا جیسے کووں نے تجربہ گاہ ہی میں خودبخود آلات بنانا سیکھ لیا ہو۔
یہ تو ایک عرصے سے معلوم تھا کہ نیو کیلیڈونیا کے جنگلی کوے ٹہنیوں کی مدد سے تنوں کے اندر سے خوراک نکالتے ہیں، لیکن تحقیق کاروں کے مطابق اب اس بات کے کافی شواہد مل گئے ہیں جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ وہ تجربہ گاہ کے کووں کی طرح ان ٹہنیوں کو آگے سے موڑ بھی سکتے ہیں۔
تجربے کے دوران جنگل سے پکڑے گئے کووں کو ایک تنا دکھایا گیا جس کے اندر سوراخوں میں لذیذ خوراک کے ٹکڑے رکھے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تجربہ گاہ میں کچھ جھاڑیاں بھی رکھ دی گئیں۔
سائنس دانوں نے دیکھا کہ کوے جھاڑیوں سے شاخیں توڑ کر انھیں ایک پاؤں کے نیچے دبا کر رکھتے ہیں، اور پھر انھیں موڑ کر ہک بنا لیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بیٹی نے تار کو موڑا تھا۔
اس کے علاوہ سائنس دانوں نے تجربہ گاہ سے باہر بھی کووں کو ایسا ہی کرتے دیکھا، جس سے ثابت ہو گیا کہ یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے۔