انسانی تحریر کی ہوبہو نقل کرنے والا سافٹ ویئر
سائنس دانوں نے ایک کمپیوٹر کو سکھایا ہے کہ وہ کسی انسان کی لکھائی کی نقل کیسے کر سکتا ہے۔
انھوں نے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام تخلیق کیا ہے جو کسی بھی لکھائی کے نمونے کی خصوصیات کا تجزیہ کر کے اسی اندازِ تحریر میں لکھ سکتا ہے۔
کمپیوٹر میں پہلے ہی سے ایسے فانٹ موجود ہیں جو مختلف انداز میں لکھ سکتے ہیں۔ لیکن ٹام ہینز اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسا سافٹ ویئر بنایا ہے جو کسی شخص کی مخصوص انفرادی لکھائی کی جزئیات کی بھی نقل کر سکتا ہے۔
انھوں نے اپنے نظام کو ’مائی ٹیکسٹ ان یور ہینڈ رائٹنگ‘ کا نام دیا ہے اور اسے تاریخی شخصیات، مثلاً ابرام لنکن اور شرلک ہومز کے خالق سر آرتھر کونن ڈائل کی تحریروں پر آزمایا ہے۔
میں نے ٹام ہینز کو ایک مشکل چیلنج دیا۔ میں شروع ہی سے خاصا بدخط ہوں، اور خود میرے خاندان کے افراد میری تحریریں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں نے ٹام کو کاغذ پر بال پین سے لکھی ہوئی تحریر دی۔
ان کے پروگرام نے ہر حرف اور رموزِ اوقاف کو نشان زد کر کے تفصیل سے جائزہ لیا کہ میں کیسے لکھتا ہوں۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ میں کبھی حرف i پر نقطہ لگاتا ہوں اور کبھی نہیں۔
جب تجزیہ مکمل ہو گیا ٹام نے سافٹ ویئر میں لفظ ’ہیلو‘ لکھا۔
سکرین پر’ہیلو‘ نمودار ہو گیا جسے پڑھنا آسان نہیں تھا، لیکن مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ یہ میری تحریر سے خاصا قریب تھا۔ پھر انھوں نے اسی لکھائی میں ایک فقرہ ٹائپ کیا جو ایک بار پھر میری لکھائی سے ملتا جلتا تھا۔
عملی استعمال
بات تو دلچسپ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس سافٹ ویئر کا فائدہ کیا ہے؟
ایک مثال تو بینکوں کی ہے جو حساس معلومات اس طرح بھیج سکتے ہیں جیسے وہ کسی کا ذاتی خط ہو۔ تحقیق کاروں نے مجھے دو لفافے دکھائے۔ مجھے انھیں الگ کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ کون سا ہاتھ سے لکھا گیا ہے اور کون سا کمپیوٹر نے ٹائپ کیا ہے۔
دوسرا استعمال ذاتی پیغامات وغیرہ میں ہو سکتا ہے جو پھولوں یا تحفوں کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کارڈ پر آپ کے ہاتھ کی ’اصل‘ تحریر میں ’سالگرہ مبارک‘ لکھا ہو تو وہ زیادہ ذاتی لگے گا۔
اسے جرائم پیشہ لوگ بھی تو استعمال کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر کسی کی تحریر کا ہوبہو نمونہ پیش کر کے؟
تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خوردبین کی مدد سے دیکھنے سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ کون سی تحریر ٹائپ شدہ ہے اور کون سی ہاتھوں سے لکھی ہوئی۔
دوسری تحریر انسانی ہاتھ کی تحریر کردہ ہے۔ باقی دونوں لکھائیاں کمپیوٹر نے سر آرتھر کونن ڈائل کے اندازِ تحریر نقل کرتے ہوئے لکھی ہیں۔