زمین کے ’پڑوس‘ میں زمین سے ملتا جلتا سیارہ دریافت
ویسے تو نظامِ شمسی سے باہر سینکڑوں سیارے دریافت ہو چکے ہیں لیکن یہ سیارہ زمین سے انتہائی قریب ہے۔ سائنس دانوں نے جب ہمارے قریب ترین ستارے ’پروکسیما سینٹوری‘ کا مشاہدہ کیا تو انھیں وہاں زمین کی جسامت کا سیارہ نظر آیا جو اپنے سورج پروکسیما سینٹوری کے گرد چکر لگا رہا ہے۔
یہ چٹانوں والا سیارہ، جسے پروکسیمیا بی کا نام دیا گیا ہے، اپنے سورج کے گرد ایک ایسے خطے میں گردش کر رہا ہے جہاں اس کی سطح پر پانی زمین کی طرح مائع حالت میں رہ سکتا ہے۔
پروکسیما بی زمین سے 40 کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں موجودہ ٹیکنالوجی پر مبنی کسی خلائي طیارہ پہنچنے میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں۔
تاہم کائناتی اعتبار سے یہ نظامِ شمسی کا پڑوس کہلاتا ہے۔
سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع رپورٹ میں ’پیل ریڈ ڈاٹ‘ (ہلکا سرخ نقطہ) نامی ٹیم کے سربراہ گولیم اینگلاڈا سکودے نے کہا: ’وہاں جانا یقینی طور پر سائنس فکشن ہے لیکن لوگ اس کے بارے میں ابھی سے سوچ رہے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ ہم کسی دن وہاں اپنی خلائی گاڑی بھیج سکتے ہیں اب صرف خیال آرائی نہیں رہی۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نودریافت شدہ سیارہ کس حد تک قابل رہائش ہو گا۔
کوین میری یونیورسٹی آف لندن کے محقق اور ان کے گروپ نے تسلیم کیا ہے کہ ابھی اس ضمن میں بہت کام ہونا باقی ہے اور انھیں اپنے مشاہدے کو مزید وسیع کرنا ہے۔
ابھی تک حاصل شدہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زمین سے تقریباً سوا گنا بڑا ہے اور یہ اپنے سورج سے 75 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر گردش کر رہا ہے اور اپنے سورج کا ایک چکر لگانے میں اسے 11.2 دن لگتے ہیں۔
زمین اور سورج کے درمیان کی جو دوری ہے اس کے مقابلے میں پروکسیما بی اپنے سورج سے صرف پانچ فی صد دور واقع ہے، لیکن یہ سورج ہمارے سورج کے مقابلے پر ایک ہزار گنا کم روشن ہے اس لیے جو توانائی پروکسیما اپنے سیارے پر ڈالتا ہے وہ زمین کے مقابلے میں صرف 70 فی صد ہے۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا اس سیارے پر کسی قسم کا کرۂ ہوائی موجود ہے یا نہیں۔