واٹسن‘ کمپیوٹر انوکھے امراض کی تشخیص کرے گا
یہ کمپیوٹر ماربرگ یونیورسٹی ہسپتال کے ناقابل تشخیص اور انوکھی بیماریوں کے مرکز میں رکھا جائے گا۔
اب تک واٹسن نے نصف درجن مریضوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس حد تک درست تشخیص کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
واٹسن وہ کمپیوٹر ہے جس نے 2011 میں امریکہ میں ذہانت کے مقابلے میں دو انسانی چیمپیئنز کو شکست سے دوچار کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت کے نظام کا صحت کے شعبے میں استعمال بڑھ رہا ہے اور گوگل کا ڈیپ مائنڈ نامی کمپیوٹر پہلے ہی سے برطانیہ کے کئی ہسپتالوں میں کام کر رہا ہے۔
ادھر نجی ہسپتالوں کے گروپ رون کلنکم اے جی میں واٹسن کی شراکت رواں سال کے آخر تک متوقع ہے۔
گیسن اور ماربرگ یونیورسٹی ہسپتال کا سنہ 2013 میں افتتاح کے بعد سے اب تک چھ ہزار مریضوں کو انتظار کی فہرست میں رکھا گيا ہے۔
ہسپتال میں میڈیکل ٹیم کے سربراہ پروفیسر جورگين شیفر کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کسی برے خواب سے کم نہیں۔
پروفیسر شیفر کا کہنا ہے کہ جو مریض وہاں آتے ہیں ان کی طویل طبی فہرست ہوتی ہے اور ان کا 40 ڈاکٹروں نے پہلے ہی سے معائنہ کر رکھا ہوتا ہے اور ان کی بیماری کی تشحیص نہیں ہو پائی ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہمارے یہاں آنے والے مریضوں کے پاس ہزاروں دستاویزات ہونا معمول کی بات ہے اور ہمیں نہ صرف مریضوں کی تعداد بلکہ ان کی رپورٹیں بھی دیکھنی پڑتی ہیں۔ یہ بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈنے کے مصداق ہے کیونکہ بہت چھوٹی معلومات بھی درست تشخیص کی جانب لے جا سکتی ہے۔‘
واٹسن مریضوں کی فائلیں پڑھنے کے علاوہ طبی مواد بھی پڑھے گا اور مختلف قسم کی تشخیص فراہم کرے گا۔
مسٹر شیفر نے کہا کہ وہ اس نظام کے متعلق پرامید ہیں۔
ابھی یہ ہسپتال اس نظام کی جانچ کر رہا ہے اور اس نے واٹسن کو 500 کیس دیکھنے کے لیے فراہم کیا ہے۔
ڈاکٹر شیفر نےبتایا کہ یہ نظام صرف نجی ہسپتالوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ’ہمارے طبی نظام کو ہائی ٹیک ہونا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ طویل مدت میں سستا ہو گا۔۔۔ حکومت کو بھی اس جانب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔’