بیکٹیریا جو خطرناک جراثیم کو کھا جاتا ہے
تجربات سے ظاہر ہوا ہے کہ بیڈیلووِبریو بیکٹیریو وورس ‘زندہ اینٹی بایوٹک’ کی طرح کام کرتے ہوئے مہلک انفیکشن سے نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ جراثیم کے اندر اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئے مدافعت کے باعث ایک دن ایسے جراثیم وجود میں آ جائیں گے جن کے خلاف ہر دوا ناکارہ ثابت ہو گی۔
بیڈیلووِبریو تیزی سے تیرنے والا بیکٹیریا ہے جو دوسرے بیکٹریا کے اندر گھس جاتا ہے اور انھیں اندر سے کھانا شروع کر دیتا ہے۔
خوراک مکمل کرنے کے بعد یہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر اپنے مردہ میزبان کے جسم سے باہر نکل آتا ہے۔
امپیریئل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ناٹنگھم کی ٹیموں نے فوڈ پوئزننگ کے علاج کے لیے بیڈیلوویبریو استعمال کیا۔
اس مرض کا باعث شِگیلا نامی بیکٹیریا ہے اور یہ ہر سال 16 کروڑ لوگوں کو بیمار کرتا ہے جن میں سے دس لاکھ کے قریب ہلاک ہو جاتے ہیں۔
لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات سے ظاہر ہوا کہ بیڈیلوویبریو شِگیلا کے خلاف تیزی سے حرکت میں آ کر اس کی آبادی چار ہزار گنا کم کر دیتا ہے۔
مچھلیوں کے لاروا میں کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ شِگیلا کے مرض سے صرف 25 فیصد لاروا بچ پاتے ہیں۔ لیکن جب انھی لاروا کو بیڈیلوویبریو دیا گیا تو ان کے بچنے کی شرح 60 فیصد تک بڑھ گئی۔
امپیریئل کالج لندن کے ڈاکٹر سرج موسٹوی نے بی بی سی کو بتایا: ‘یہ بڑا تخلیقی طریقہ ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ میزبان بیکٹیریا اس کے خلاف مدافعت پیدا نہیں کر سکتا۔
‘یہ زندہ اینٹی بایوٹک کی تحقیق میں اہم سنگِ میل ہے اور اسے انسانوں اور جانوروں دونوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔’
سائنس دانوں کے مطابق بیڈیلوویبریو کو متاثرہ زخموں کے علاج کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر اس کے استعمال سے قبل مزید تجربات کی ضرورت ہے۔
مزید اچھی بات یہ سامنے آئی ہے کہ بیڈیلوویبریو کی وجہ سے جسم کا اپنا دفاعی نظام بھی حرکت میں آ جاتا ہے اور بچے کھچے نقصان دہ بیکٹیریا کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ خود بیڈیلوویبریو بیماری پیدا نہیں کرتا۔
یہ طریقۂ علاج شِگیلا کے علاوہ ای کولائی (فوڈ پوئزننگ، مثانے کے انفیکشن) اور سالمونیلا (ٹائفائیڈ) جیسے موذی بیکٹیریا کے خلاف بھی کارگر ہے۔