تعلیم و ٹیکنالوجی

DTH سروس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے

لیکن زیادہ تر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ آخر یہ DTH کیا ہے، کس طرح کام کرتی ہے، پاکستانی عوام کو اس سے کیا فائدہ ہو گا اور اس کے نقصانات کیا ہیں جبکہ کیبل آپریٹرز ان لائسنس کی نیلامی کے خلاف کیوں تھے ؟ اس خبر میں آپ کو DTH سے متعلق وہ تمام معلومات دی جا رہی ہیں جو آپ نہیں جانتے اور اس سارے معاملے کو سمجھنے کیلئے ان باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔ تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر یہ DTH نے اتنا مسئلہ کیوں پیدا کر رکھاکا مطلب ہے Direct to Home، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس سروس کے ذریعے ٹی وی چینلز کے سگنلز کسی کیبل آپریٹر اور تار ذریعے نہیں بلکہ کمپنی سے سیٹلائٹ کے ذریعے ڈائریکٹ صارف کے گھر تک پہنچتے ہیں۔ ڈی ٹی ایچ کی ٹیکنالوجی نئی اور زبردست ہے جس کے ذریعے ہائی کوالٹی یعنی 1080i ریزولوشن کی ٹرانسمیشن دیکھنے کو ملتی ہے اور آواز کا معیار بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔ کیبل سروس کے ذریعے 100 کے قریب چینل فراہم کئے جاتے ہیں لیکن DTH استعمال کرتے ہوئے 700 کے قریب چینل سکین کئے جا سکتے ہیں۔
چونکہ اس سروس کے ذریعے چینل کمپنی سے سیٹلائٹ کے ذریعے ڈائریکٹ صارف کے گھر تک پہنچ رہے ہوتے ہیں اس لئے ان میں وہ اشتہار بھی نہیں ہوتے تو کیبل آپریٹرز کی سروس میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کیبل آپریٹرز کی جانب سے فراہم کی جانے والی سروس ہاف ڈوپلیکس ہوتی ہے لیکن DTH کی سروس فل ڈوپلیکس ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ ناصرف ٹی وی ٹرانسمیشن دیکھ سکتے ہیں بلکہ اسی کے ذریعے اپنا پیغام بھی کمپنی کو بھیج سکتے اور اس کے ذریعے خاص چینل، کسی فلم حتیٰ کہ فون نمبر وغیرہ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کوئی چینل پیچھے کر کے دیکھنا چاہتے ہیں یا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو یہ سہولت بھی میسر کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی دیگر سہولیات موجود ہیں۔
DTH ٹیکنالوجی وائرلیس ہے اور تاروں کے بغیر کام کرتی ہے اس لئے اسے کہیں بھی رکھا جا سکتا ہے اور کیبل

آپریٹرز کی جانب سے گلیوں اور گھروں تک آنے والے تاروں کے جال سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اس سروس کے ذریعے سگنل سیٹلائٹ کے ذریعے موصول ہوتے ہیں اس لئے نا ہی کسی تار کی خرابی کا ڈر رہتا ہے اور نہ ہی موسم کی خرابی کے باعث کیبل بند ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ لائٹ جانے پر بھی ٹی وی دیکھا جا سکتا

اگرچہ DTH نئی اور بہترین ٹیکنالوجی ہے لیکن پاکستان میں ہر شخص اسے استعمال کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس سروس کے بھرپور استعمال کیلئے اچھی کوالٹی کا LED ٹی وی ہونا ضروری ہے اور اگر بھرپور لطف اٹھانا ہو تو ٹی وی سکرین کا سائز بھی بڑا ہونا ضروری ہے جبکہ ایک DTH باکس کے ساتھ صرف ایک ہی ٹی وی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ اگر ایک سے زائد ٹی وی ایک باکس کے ساتھ لگا بھی دئیے جائیں تو دونوں پر ایک ہی وقت میں ایک ہی چینل دیکھا جا سکے گا کیونکہ ایک باکس ایک وقت میں ایک ہی چینل دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی گھر میں موجود مختلف ٹی وی سیٹس کیلئے الگ الگ DTH باکس لینا پڑیں گے اور ان کی ماہانہ فیس بھی ادا کرنا ہو گی۔
پاکستان میں اس وقت بہت سے انفرادی لوگ DTH استعمال کر رہے ہیں جبکہ کیبل آپریٹرز بھی DTH سروس استعمال کرتے ہوئے ہی کیبل کا بزنس چلا رہے ہیں۔ وہ مختلف DTH سروسز کے ذریعے چینل کی ٹرانسمیشن لیتے ہیں اور پھر کیبل تاروں کے ذریعے آگے صارفین تک پہنچاتے ہیں۔ کیبل آپریٹرز کی جانب سے پاکستان میں جتنے بھی چینل استعمال ہو رہے ہیں وہ سری لنکا اور بھارت کے ہیں اس لئے ان سے حاصل ہونے والا منافع ملکی خزانے میں جانے کے بجائے ان دونوں ملکوں کو جا رہا ہے لیکن نیلامی کے بعد لائسنس کی باقاعدہ فروخت سے منافع بھی پاکستان کو ہی ملے گا اور صارف کو بھی سہولت ہو گی۔ عام صارف کیلئے DTH کا نقصان یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد اگر ایک سے زائد ٹی وی استعمال کرے ہیں تو انہیں ہر ٹی وی کیلئے الگ DTH باکس لینا ہو گا۔ کیبل آپریٹرز ماہانہ 200 سے 300 روپے میں یہ سروس فراہم کر رہے ہیں جبکہ DTH کیلئے ماہانہ 1000 سے 1,500 روپے دینا ہوں گے جبکہ ڈیجیٹل باکس حاصل کرنے کیلئے 4 سے 5 ہزار روپے الگ سے ادا کرنا ہوں گے۔
کیبل آپریٹرز کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر DTH سروس فراہم کر دی گئی تو ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر جائے گا اور انہیں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اچھی لوگ ضرور اچھی سروس کو ہی ترجیح دیں گے اور یہی وجہ ہے کہ کیبل آپریٹرز کے احتجاج اور ہڑتالوں کے باعث یہ نیلامی کئی سالوں سے آگے ہوتی چلی آ رہی ہے تاہم بالآخر سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد پیمرا نے 3 لائسنس 4 ارب روپے میں فروخت کر دئیے ہیں جو کہ امید کی گئی رقم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close