آپریشن کے ذریعے پیدائش سے انسانی ارتقا میں خلل
ساٹھ کی دہائی میں اگر ہزار میں سے 30 بچوں کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہو رہی تھی تو اب ہزار میں سے 36 بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق اگرچہ اس رجحان کے جاری رہنے کا امکان ہے تاہم اس حد تک نہیں کہ فطری طریقے سے پیدائش کا عمل بالکل معدوم ہوجائے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اب زیادہ تر خواتین تنگ پیڑو کی وجہ سے آپریشن کے ذریعے بچے پیدا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
آسٹریا میں سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ جدید دور میں کامیاب آپریشن کے باعث وہ خواتین جن کی پیڑو تنگ ہوتی ہے ان کے جینیات اگلی نسل میں بھی منتقل ہورہے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ رحجان جاری رہے گا مگر اس حد تک نہیں پہنچے گا کہ آپریشن کے بغیر بچوں کی پیدائش ختم ہو جائے۔
یونیورسٹی آف ویانا کے بائیولوجی کے ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر فلپ مٹروکر کا کہنا ہے کہ تنگ پیڑو جیسے مسائل ماضی میں بھی تھے مگر جدید طبی سہولتوں کی عدم موجودگی میں پیدائش کے دوران ماں یا بچے یا ان دونوں کی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اور اسی وجہ سے تنگ پیڑو آئندہ نسلوں میں منتقل نہیں ہو پاتے تھے۔
تاہم آج یہ جینیات بیٹیوں میں منتقل ہو رہی ہے۔
انسانی ارتقا کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ انسانی پیڑو اتنے سالوں میں بھی بڑھی کیوں نہیں۔ دیگر جانداروں کے مقابلے میں انسانی بچے کا سر جسم کے دیگر حصوں سے بڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر جانوروں میں پیدائش کا عمل نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
سائنسدانوں نے تحقیق کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت دیگر اداروں کی پیدائش کے عمل سے متعلق تحقیقات کا ماڈل ڈیٹا استعمال کیا جس میں انھوں نے اختلافی ارتقائی قوتیں ملیں۔