تعلیم و ٹیکنالوجی

تجربات میں کینسر کے پھیلاؤ میں 75 فیصد کمی

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ جانوروں پر کیے جانے والے تجربات میں جسم میں کینسر کا پھیلاؤ 75 فیصد تک روکنے میں کامیابی ملی ہے۔

عام طور پر کینسر کی رسولی جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جاتی ہے اور یہ عمل یہ اس مرض کے باعث ہونے والی 90 فیصد اموات کا باعث بنتا ہے۔

سائنسی رسالے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام میں تبدیلی سے جلد کے کینسر کا پھیپھڑوں تک پھیلاؤ محدود کیا جا سکتا ہے۔

کینسر ریسرچ یو کے نے کہا ہے کہ اس ابتدائی تحقیق سے رسولی کے پھیلاؤ کے عمل پر روشنی پڑی ہے اور اس سے نئے علاج وضع کرنے میں مدد ملے گی۔

کیمبرج میں واقع سینگر انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے اس موضوع پر تحقیق کی کہ کینسر کی رسولی کسی طرح سے جسم کے ایک حصے سے نکل کر دوسرے حصوں تک پھیل جاتی ہے۔

انھوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ 810 چوہوں پر تجربات کیے جن سے معلوم ہوا کہ ان کے ڈی این اے کا ایک حصہ کینسر کے پھیلاؤ میں مزاحمت کر رہا تھا۔

ان چوہوں میں جلد کے کینسر کے خلیے انجیکٹ کیے گئے اور اس کے بعد سائنس دانوں نے دیکھا کہ چوہوں کے پھیپھڑوں میں کتنی رسولیاں بنتی ہیں۔

چوہوں کے ڈی این اے کے مشاہدے سے پتہ چلا کہ 23 ایسے جین ہیں جو کینسر کے پھیلاؤ میں یا تو مدد دیتے ہیں یا پھر اس میں خلل ڈالتے ہیں۔

ان میں سے بہت سے جینز کا تعلق مدافعتی نظام سے تھا۔

خاص طور پر Spns2 نامی ایک جین ایسا پایا گیا جس کی وجہ سے رسولی کا پھیپھڑوں تک پھیلاؤ تین چوتھائی حد تک رک گیا۔

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ جانوروں پر کیے جانے والے تجربات میں جسم میں کینسر کا پھیلاؤ 75 فیصد تک روکنے میں کامیابی ملی ہے۔

عام طور پر کینسر کی رسولی جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جاتی ہے اور یہ عمل یہ اس مرض کے باعث ہونے والی 90 فیصد اموات کا باعث بنتا ہے۔

سائنسی رسالے نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام میں تبدیلی سے جلد کے کینسر کا پھیپھڑوں تک پھیلاؤ محدود کیا جا سکتا ہے۔

کینسر ریسرچ یو کے نے کہا ہے کہ اس ابتدائی تحقیق سے رسولی کے پھیلاؤ کے عمل پر روشنی پڑی ہے اور اس سے نئے علاج وضع کرنے میں مدد ملے گی۔

کیمبرج میں واقع سینگر انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم نے اس موضوع پر تحقیق کی کہ کینسر کی رسولی کسی طرح سے جسم کے ایک حصے سے نکل کر دوسرے حصوں تک پھیل جاتی ہے۔

انھوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ 810 چوہوں پر تجربات کیے جن سے معلوم ہوا کہ ان کے ڈی این اے کا ایک حصہ کینسر کے پھیلاؤ میں مزاحمت کر رہا تھا۔

ان چوہوں میں جلد کے کینسر کے خلیے انجیکٹ کیے گئے اور اس کے بعد سائنس دانوں نے دیکھا کہ چوہوں کے پھیپھڑوں میں کتنی رسولیاں بنتی ہیں۔

چوہوں کے ڈی این اے کے مشاہدے سے پتہ چلا کہ 23 ایسے جین ہیں جو کینسر کے پھیلاؤ میں یا تو مدد دیتے ہیں یا پھر اس میں خلل ڈالتے ہیں۔

ان میں سے بہت سے جینز کا تعلق مدافعتی نظام سے تھا۔

خاص طور پر Spns2 نامی ایک جین ایسا پایا گیا جس کی وجہ سے رسولی کا پھیپھڑوں تک پھیلاؤ تین چوتھائی حد تک رک گیا۔

بتایا: ‘یہ جین پھیپھڑوں کے اندر جسم کے مدافعتی نظام کا توازن برقرار رکھتا ہے۔ یہ رسولی کے خلیوں کو ہلاک کرنے خلیوں اور مدافعتی نظام کو بند کرنے والے خلیوں کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے۔’

حال میں ایک نیا طریقۂ علاج سامنے آیا ہے جسے امیونو تھیرپی کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کینسر کا علاج مدافعتی نظام کی مدد سے کیا جاتا ہے اور بعض مریضوں میں اس کے ڈرامائی نتائج سامنے آئے ہیں۔

اس علاج کے بعد کچھ انتہائی بیمار مریضوں میں کینسر مکمل طور پر ختم ہو گیا، تاہم بعض مریضوں میں اس نے کام نہیں کیا۔

مستقبل میں ایسی ادویات بنائی جا سکتی ہیں جو Spns2 جین پر عمل کر کے کینسر کی نشو و نما روک دیں۔

کینسر ریسرچ یو کے کے ڈاکٹر جسٹن ایلفورڈ نے کہا: ‘پھیل جانے والے کینسر کا علاج کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے اس قسم کی تحقیق انتہائی اہم ہے۔’

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close