’ہجرت‘ ایک کمزور اور بوجھل فلم
افغانستان کی جنگ کے تناظر میں بنائی رومانوی فلم ’ہجرت‘ پاکستان کے کیمپوں میں مقیم افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی پہلی پاکستانی فلمی کوشش ہے۔
تاہم بکھری ہوئی کہانی، کمزور تکنیک اور کردار کے حساب سے انتہائی غیر موضوع اداکاروں نے اس فلم کو بوجھل اور دلچسپی سے عاری رکھا۔
اس فلم کے مصنف، ہدایتکار اور پروڈیوسر فاروق مینگل ہیں جنہوں نے 12 کروڑ کی لاگت سے یہ فلم تین سال کے طویل عرصے میں بنائی اگرچہ فلمانے کا کُل دورانیہ صرف 45 دن ہی کا تھا۔
اس فلم کی کہانی ایک افغان مہاجر کیمپ میں جیا (رابعہ بٹ) اور مراد (اسد زمان) درمیان ہونے والی محبت ہے۔ اس کیمپ میں جس کے ارد گرد جا بجا بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور جہاں غربت، بے سروسامانی اور موت ہر وقت منڈلاتی رہتی ہیں۔
مراد کا تعلق استنبول سے ہے اور وہ اپنی ماں کہ کہنے پر اس کیمپ کے بارے میں ایک رپورٹ لکھنے کے لیے آتا ہے جبکہ جیا ایک معالج ہے جو اس کیمپ میں رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی طبی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔
مراد کی منگنی استنبول میں ایک لڑکی ماہی (رباب علی) سے طے ہوتی ہے جبکہ جیا کا منگیتر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک دہشتگردی کے واقعے میں ہلاک ہوگیا تھا۔
اس فلم میں ان دونوں کے درمیان جاری محبت کی کشمکش کے دوران میں کیمپ میں پیش آنے والے واقعات جن میں وقتاً فوقتاً وہاں لائی جانے والی لاشیں اور مختلف بیماریوں سے بچوں کی اموات کو دکھا کر جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی المیے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہیں کہیں استنبول کی رنگ و نور سے بھری زندگی دکھا کر کہانی کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے۔
ایوب کھوسہ نے ایک بار پھر ایک افغان کا کردار ادا کیا ہے اگرچہ مختصر ہی سہی مگر ان کے چند ڈائیلاگ نے افغان عوام کو درپیش مشکلات کا احاطہ بخوبی کیا۔
تاہم کئی اعتبار سے یہ انتہائی کمزور فلم ہے۔ فاروق مینگل نے
ان خامیوں کو تسلیم بھی کیا۔
مثلاَ َ کئی مقامات پر فلم کی آواز اور تصویر میں مطابقت نہیں تھی جس کی وجہ فاروق مینگل کے مطابق اس فلم کی آواز کی بھارت میں تیاری اور پھر پاکستانی سینما میں چلایا جانا تھا جس میں ان کے بقول کئی تکنیکی رکاوٹیں حائل ہیں۔
اگرچہ انھوں نے تینوں اہم کرداروں کی تعریف کی کہ انہوں نے لگن اور محنت سے کام کیا تاہم سینما کے پردے پر ان تینوں کے درمیان ہم آہنگی کا شدید فقدان نظر آیا۔
اس فلم میں ندیم بیگ، جمال شاہ، دردانہ بٹ اور زیب رحمان نے بھی کیریکٹر ایکٹر کے طور پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں اور ان منجھے ہوئے اداکاروں نے کئی مواقع پر فلم کو سہارا بھی دیا۔
کیمپ میں مقیم ایک اور ڈاکٹر سارہ کا کردار ماہ جبیں نے بہت عمدگی سے ادا کیا اور کئی مرتبہ سین میں ان کی شخصیت ہیروئین سے زیادہ اہم نظر آئی۔
معروف فلمی اداکارہ ثنا فخر کا آئٹم نمبر فلم میں زبردستی ٹھونسا ہوا محسوس ہوا اور یوں لگا جیسے ساری توجہ کپڑے چھوٹے کرنے پر مرکوز کرکے رقص کو نظر انداز کردیا گیاہے۔ اگرچہ فلم کی موسیقی اچھی ہے اور آئٹم نمبر بھی سننے میں تو اچھا ہی لگا۔
اس فلم کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ ان پاکستانی فلموں سے بہتر ہے جوٹیلی فلم کے انداز میں بنائی گئی ہیں اپنی تمام تر تکنیکی کمزوریوں کے باوجود فلم ہی کہلائی جائے گی۔
تاہم بے ربط کہانی نے اس کا مزہ پھیکا کردیا جس کی وجہ ہدایتکار کے مطابق یہ ہے کہ بہت طویل فلم کو کاٹ کر دو گھنٹے تک محدود کرنے سے کہانی متاثر ہوئی جس کی ذمہ داری انہوں نے قبول کی۔ انھوں نے کہا کہ پریمئیر کے دوران ایک فلم بین کی حیثیت سےکہانی سمجھنے میں خود انہیں بھی مشکل درپیش ہوئی تاہم وہ پُرامید ہیں کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آئندہ بہتر فلم پیش کریں گے۔
فلم ہجرت 22 فروری سے پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جبکہ اسے جلد ہی برطانیہ سمیت یورپ اور امریکہ میں بھی ریلیز کیا جائے گا۔