عفریت کا پتا چلانے کیلئے جھیل کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ
سکاٹ لینڈ میں 37 کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ایک جھیل ہے جسے لاک نیس کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کی وجہ شہرت ایک اور پراسرار شے بھی ہے جسے لاک نیس کا عفریت کہا جاتا ہے۔ لمبی گردن والی اس مخلوق کو اب تک سینکڑوں افراد نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا ہے اور اسی بنا پر اب جھیل کے 300 مقامات پر ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے۔جھیل کی اس فرضی مخلوق کو ’’نیسی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔سرخی کے عین نیچے دی گئی تصویر آپ نے کئی بار دیکھی ہوگی جس میں لاک نیس کا عفریت صاف دکھائی دے رہا ہے تاہم اس تصویر کو جعلی قرار دیا جاچکا ہے۔ اب نئے منصوبے کے تحت جھیل میں نامیاتی مواد سے ڈی این اے نکالا جائے گا جس کے نگراں یونیورسٹی آف اوٹاگو نیوزی لینڈ کے پروفیسر نیل گیمل ہیں۔پروفیسر کے مطابق جھیل کے 300 مقامات اور مختلف گہرائیوں سے جلد، پروں، ان کے چھلکوں اور پیشاب وغیرہ کے ڈی این معلوم کرکے ان کا موازنہ موجودہ ڈیٹابیس سے کیا جائے گا اور اگر کوئی نیا ڈی این اے ہاتھ لگا تو اس بنا پر کسی نئی مخلوق کے ڈی این اے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔پروفیسر نیل نے صاف کہا ہے کہ وہ نیسی پر یقین نہیں رکھتے تاہم وہ اس مفروضے پر تحقیق ضرور کرنا چاہیں گے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ یہ وہ قدیم ڈائنوسار پیلیسیوسار ہے جو اب تک زندہ ہے۔ اب تک سینکڑوں افراد نے اس مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ثبوت میں بہت کم تصاویر پیش کی ہیں۔تاہم سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر نیسی کا ڈی این اے نہ بھی ملا تو لوگ پھر بھی اس پر یقین کرنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ نیسی کو حقیقت ماننے والے افراد پہلے ہی کہتے رہے ہیں کہ نیسی خلائی مخلوق بھی ہوسکتی ہے اور ایسی خلائی مخلوق جس کا ڈی این اے کسی ٹیسٹ سے معلوم نہیں کیا جاسکتا ہے یا پھر نیسی غار میں رہتا ہے اور کبھی کبھار باہر آتا ہے۔