رکاوٹوں کو توڑتی ‘موٹر سائیکل گرل’ پر ایک نشست
پاکستانی فلم ‘موٹرسائیکل گرل’ کے ہدایتکار عدنان سرور کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں ایسی کئی فلمیں بنائی گئی ہیں، جو خواتین کے گرد گھومتی ہیں، لیکن پاکستان میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔ فلم ‘موٹر سائیکل گرل’ رواں برس 20 اپریل کو ریلیز کی گئی تھی، جسے کافی اچھا رسپانس موصول ہوا تھا۔
یہ فلم زینتھ عرفان کی زندگی کی کہانی ہے جو اپنی بائیک پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو نکلتی ہے اور ساری رکاوٹوں اور دقیانوسی سوچ کو روندتے ہوئے اپنا خواب پورا کرتی ہے، اس کردار کو ‘موٹرسائیکل گرل’ میں سوہائے علی ابڑو نے نبھایا۔
واضح رہے کہ زینتھ کے والد کا انتقال اُس وقت ہوا، جب وہ محض 11 ماہ کی تھیں، ان کے والد موٹرسائیکل پر لاہور سے خنجراب تک جانا چاہتے تھے لیکن وہ 41 سال کی عمر میں ہی خالق حقیقی سے جاملے اور ان کے اس خواب کو ان کی صاحبزادی نے حقیقت میں بدلا۔
رواں ہفتے کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں عکس ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام فلم موٹر سائیکل گرل پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جہاں فلم کے ہدایتکار عدنان سرور اور مرکزی اداکارہ سوہائے علی ابڑو سمیت دیگر کاسٹ نے بھی شرکت کی۔
فلم کے ہدایتکار عدنان سرور نے تقریب کے دوران بتایا کہ موٹر سائیکل گرل میں ہیرو لڑکا نہیں لڑکی ہے، جو کہ پوری فلم میں موٹر سائیکل چلا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں فلم دیکھی جائے گی یا نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فلم کی فنڈنگ جمع کرنے میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ان ہی کی بدولت فلم آن اسکرین پیش ہو سکی۔
عدنان سرور کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہم سرحد کے اُس پار دیکھیں تو کئی فلمیں ایسی ہیں جو خواتین کے گرد گھومتی ہیں، مگر یہاں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ آرٹ کے ذریعے بہت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اس موقع پر سہائے علی ابڑو نے بھی اپنے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھیں زینتھ عرفان کا کردار نبھا کر بہت اچھا لگا اور وہ آئندہ بھی اسی قسم کے منفرد کام کو ترجیح دیں گی۔