انٹرٹینمنٹ

‘شوبز میں ریپ یا زبردستی نہیں بلکہ سب کچھ رضامندی سے ہوتا ہے’

ممبئی: بھارت میں ان دنوں جہاں ‘می ٹو’ مہم اپنے عروج پر ہے، جس کے تحت کئی خواتین اور اداکارائیں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے واقعات سامنے لا رہی ہیں۔ وہیں ٹی وی کی معروف اداکارہ شلپا شندے نے ایک حیران کن انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔

بگ باس 11 کی فاتح 41 سالہ شلپا شندے نے بھی اگرچہ ایک سال قبل ایک ڈرامہ پروڈیوسر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا، تاہم اب وہ کہتی ہیں کہ شوبز میں کوئی زبردستی نہیں ہوتی۔

بھارتی نشریاتی ادارے ‘ٹائمز ناؤ‘ سے خصوصی بات کے دوران شلپا شندے نے بولی وڈ میں جاری ‘می ٹو’ مہم پر کھل کر بات کرتے ہوئے ان اداکاراؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا، جو طویل عرصے تک خاموش رہنے کے بعد اب اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بات کرتی دکھائی دیتی ہیں

شلپا شندے کا کہنا تھا کہ یہ عمل بلکل غلط ہے کہ جب خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، تب وہ خاموش رہیں اور اب کافی دیر بعد بول رہی ہیں۔

متنازع اداکارہ اور ڈانسر کا کہنا تھا کہ خواتین کو اپنے ساتھ نازیبا واقعات کے خلاف اس وقت ہی آواز اٹھانی چاہیے، جب وہ متاثر ہوں، جس طرح انہوں نے ایک سال قبل اس وقت آواز اٹھائی تھی جب انہیں پروڈیوسر نے جنسی طور پر ہراساں کیا، لیکن اب وہ ماضی کے قصے کو دوبارہ نہیں دہرا رہیں۔

شلپا شندے کا یہ بھی کہنا تھا کہ شوبز انڈسٹری میں آنے والی نئی لڑکیوں کو جگہ بنانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے، تاہم وہ اس دوران یہ سمجھ نہیں پاتیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں؟

شلپا شندے کے مطابق انہوں نے کئی ایسی نئی لڑکیوں کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں دیکھا ہے جو کیریئر کے آغاز میں انتہائی مختصر کپڑے پہن کر ڈائریکٹر و پروڈیوسرز کے پاس جاتی ہیں۔

شلپا شندے نے دعویٰ کیا کہ بولی وڈ میں کوئی ‘ریپ‘ یا زبردستی نہیں ہوتی، تمام باتیں ایک سمجھوتے کے تحت ہوتی ہیں۔

شلپا شندے کا کہنا تھا کہ شوبز انڈسٹری میں سمجھوتے کے تحت ‘کچھ لو اور کچھ دو’ کی بنیاد پر چیزیں ہوتی ہیں۔

اداکارہ کے مطابق ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کے الزامات لگانے والی اداکاراؤں کو اس وقت آواز بلند کرنی چاہیے جب ان کے ساتھ نازیبا واقعہ ہو، بعد میں بات کرنے سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی تنازع کو جنم دے رہی ہیں اور لوگ ان کا اعتبار بھی نہیں کریں گے۔

شلپا شندے نے یہ اعتراف بھی کیا کہ شوبز انڈسٹری کوئی بہت ہی اچھی نہیں ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اتنی بری بھی نہیں ہے، جتنا اس خراب دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ شلپا شندے نے 2001 میں اداکاری کی شروعات کی اور اب تک وہ کم سے کم 30 ڈراموں میں کام کرچکی ہیں، جب کہ انہوں نے تامل فلموں میں بھی کام کیا ہے۔

شلپا شندے نے بولی وڈ فلم ‘پٹیل کی پنجابی شادی’ میں مختصر کردار ادا کیا ہے، تاہم ان کا شمار بھارت کی معروف اور متنازع اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔

بگ باس میں شرکت کرنے کی وجہ سے انہیں متنازع مانا جاتا ہے۔

شلپا شندے وہ پہلی اداکارہ نہیں ہیں، جنہوں نے کہا ہو کہ بولی وڈ میں ‘ریپ’ یا زبردستی نہیں ہوتی بلکہ تمام معاملات سمجھوتے کے تحت ہوتے ہیں۔

ان سے قبل اداکارہ راکھی ساونت نے بھی رواں برس اپریل میں کہا تھا کہ ’شوبز انڈسٹری میں کوئی کسی کو جنسی زیادتی کا نشانہ نہیں بناتا، بلکہ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات قائم ہوتے ہیں‘۔

اداکارہ نے دعویٰ کیا تھا کہ بولی وڈ میں کوئی کسی کو ’ریپ‘ کا نشانہ نہیں بناتا، بلکہ یہاں پر ہرکوئی رضامندی اور رضاکارانہ طور پر جنسی تعلقات استوار کرتا ہے۔

راکھی ساونت سے قبل مشہور کوریو گرافر سروج خان نے بھی کہا تھا کہ فلم انڈسٹری میں (کاسٹنگ کاؤچ) یعنی کام کے بدلے ‘سیکس‘ بابا آدم کے زمانے سے چلی آ رہی ہے اور یہاں ہر کوئی ہر لڑکی پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔

سروج خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ بولی وڈ میں کاسٹنگ کاؤچ سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تاہم یہاں ایسے معاملات باہمی رضامندی سے بھی ہوتے ہیں، اگر لڑکیاں ایسا نہیں کرنا چاہیں تو انہیں کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close