نقاب پہن کر گٹار بجانے والی فنکارہ
یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات اور روایتی تصور کے خلاف ہوگی۔
لیکن برازیل کی گیسل میری اسی روایتی اور فرسودہ تصور کو پاش پاش کر چکی ہیں جو نقاب پہن کر گٹار بجاتی ہیں
ساؤ پاؤلو کی رہائشی 42 سالہ میری عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن 2009 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔
لیکن انہوں نے اپنا پیشہ، جو کہ ان کا شوق بھی ہے نہیں چھوڑا۔ وہ ایک پروفیشنل موسیقار ہیں اور گٹار بجاتی ہیں۔ میری اور ان کے بھائی نے مل کر ایک میوزک بینڈ بھی بنایا تھا جس میں میری گٹار بجایا کرتی تھیں۔ تاہم ذاتی اختلافات کی وجہ سے وہ بینڈ ٹوٹ گیا۔
اب میری مکمل برقعہ اور نقاب میں ملبوس، گٹار بجاتی ہیں اور کچھ گلوکاروں کے ساتھ مل کر بہت جلد ایک البم بھی ریلیز کرنے والی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’اسلام میرا مذہب ہے اور موسیقی میرا شوق۔ مذہب مجھے میرے شوق کی تکمیل سے کسی صورت نہیں روکتا‘۔
میری کو شعبہ موسیقی اور مذہبی افراد دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ مذہبی افراد ان کے گٹار بجانے پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ موسیقاروں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس بات پر اعتراض ہے کہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ مناسب لباس نہیں ہے۔
تاہم میری کو اس بات کی چنداں فکر نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی کا پیشہ، اور اس کا مذہب بالکل ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو اس پر رائے زنی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ’مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے برقعہ میں ملبوس، یا گٹار بجاتے دیکھ کر کیا سوچتے ہیں‘۔
البتہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو میری کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہیں۔
اپنے قبول اسلام کے بارے میں میری کا کہنا ہے، ’میرا تعلق ایک کٹر عیسائی گھرانے سے ہے۔ لیکن جب میں نے اسلام قبول کیا تو میرے خاندان نے اسے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہی نہیں انہوں نے میرے باحجاب لباس پر بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا‘۔
میری اکثر کنسرٹس میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں جہاں انہیں تعریف و تنقید دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میری کا ماننا ہے کہ ایک باعمل مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے شوق کی تکمیل سے وہ اسلام کا ایک مثبت تشخص اجاگر کرنا چاہتی ہیں کہ، اسلام شدت پسند مذہب ہرگز نہیں اور اس میں فنون لطیفہ کی بھی گنجائش ہے۔