چاکلیٹی ہیرو’وحید مراد‘ کو گزرے 35 برس بیت گئے
پاکستان کے فلمی صنعت میں چاکلیٹی ہیرو کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے وحید مراد نے دو اکتوبر انیس سو اڑتیس کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی، تعلیمی مراحل کراچی میں طے کیے اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
وحید مراد انیس سو باسٹھ میں پہلی بار کیمرے کے سامنے جلوہ گرہوئے اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’’ارمان‘‘ نے وحید مراد کو پاکستان کا پہلا سپراسٹار بنادیا۔
احمد رشدی کے گائے ہوئے گانے ’’کوکورینا‘‘ اور ’’اکیلے نہ جانا‘‘ پر وحید مراد کی پرفارمنس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔1960ء میں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔
ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا، وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھے اوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا۔
یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔اُن کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ پاکستان کی وہ پہلی فلم ہے جس کی فلم بندی سب سے پہلے بیرونِ ملک میں کی گئی۔ پہلی رنگین فلم ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ تھی۔
وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔
وحید مراد تئیس نومبر انیس سو تراسی کو پراسرار حالات میں اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے، آپ لاہور کے گلبرگ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں لیکن اپنی مسحور کن شخصیت کے سبب آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔