صہیونی ریاست کا قانون نسل پرستانہ اور ایک غلطی ہے، جس سے میں اتفاق نہیں کرتی، یہودی اداکارہ
لاس ویگس: ہولی وڈ کی مشہور اداکارہ نتالی پورٹ مین نے اسرائیل کی صہیونی ریاست کے قانون کو "نسل پرستانہ” قرار دیا ہے۔ اسرائیلی نژاد یہودی اداکارہ نے یہ بات ایک عربی اخبار القدس العربی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہی۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اداکارہ نے کہا "صہیونی ریاست کا قانون نسل پرستانہ ہے اور یہ ایک غلطی ہے جس سے میں اتفاق نہیں کرتی کہ لوگوں کی زندگیاں ذاتی سطح پر سیاستدانوں کے فیصلے سے متاثر ہوں۔
” انہوں نے مزید کہا کہ میں صرف امید کرسکتی ہوں کہ ہم اپنے ہمسائیوں سے حقیقی معنوں میں محبت کرسکیں اور اکٹھے مل کر کام کرسکیں گے۔ خیال رہے کہ رواں سال جولائی میں اسرائیلی پارلیمان نے اسرائیل کو خصوصی طور پر صہیونی ریاست کا درجہ دینے کا قانون منظور کیا تھا۔ اس قانون میں عبرانی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا گیا جبکہ یہودی بستیوں کی آبادکاری کو قومی مفاد کا حصہ بنایا گیا۔ اس قانون میں پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی قرار دیا گیا۔
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی آبادی کا 20 فیصد حصہ اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے، جنہیں قانون کے تحت برابری کے حقوق حاصل ہیں، لیکن ان کی جانب سے طویل عرصے سے دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت ملنے کی شکایات کی جاتی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ نتالی پورٹ مین کی جانب سے اسرائیلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ رواں سال اپریل میں انہوں نے بیت المقدس میں ایک انعام کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا، جو کہ انہیں دیئے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اداکارہ نے اس موقع پر کہا کہ وہ تقریب میں اس لئے شرکت نہیں کرنا چاہتی، کیوںکہ اس سے لگے گا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم کی توثیق کر رہی ہیں۔ ایک انسٹاگرام پوسٹ میں انہوں لکھا کہ متعدد اسرائیلیوں اور دنیا بھر میں موجود یہودیوں کی طرح میں پوری قوم کا بائیکاٹ کئے بغیر اسرائیلی قیادت پر تنقید کرسکتی ہوں۔ ان کے بقول میں اپنے اسرائیلی دوستوں، خاندان، غذاﺅں، کتابوں، فنون لطیفہ اور رقص کو پسند کرتی ہوں، مگر موجودہ عہد کے ظلم میری یہودی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔