انٹرٹینمنٹ

پاکستانی فنکاروں پر پابندی دہشت گردی کا حل نہیں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی حملے کے بعد ریاست مہاراشٹر کی سخت گیر ہندو جماعت مہاراشٹر نونرمان سینا نے فواد خان اور ماہرہ خان جیسے پاکستانی فنکاروں کو 48 گھنٹے کے اندر انڈیا چھوڑنے کو کہا تھا۔

راج ٹھاکرے کی جماعت ایم این ایس نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ ان تمام فلموں کو ریلیز نہیں ہونے دیں گے جن میں پاکستانی اداکار یا فنکار کام کر رہے ہیں۔

کرن جوہر نے کہا کہ وہ اوڑی میں ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کے بعد ملک میں پائے جانے والے غصے کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں’لیکن پاکستانی فنکاروں پر پابندی لگانا دہشت گردی کا حل تو نہیں ہے۔‘

کرن جوہر کی آنے والی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ میں فواد خان نے اداکاری کی ہے۔ یہ فلم آئندہ ماہ دیوالی کے موقع پر ریلیز ہونے والی ہے۔

فواد کے علاوہ ماہرہ خان فلم رئیس میں شاہ رخ حان کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ اس علاوہ گلوکار عاطف اسلم، راحت فتح علی خان، اداکار جاوید شیخ، علی ظفر اور عمران عباس جیسے فنکار بھی بالی وڈ میں سرگرم ہیں۔

کرن جوہر نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چيت میں کہا کہ ’میں لوگوں کی تکلیف اور غصے کو سمجھ سکتا ہوں۔ جن کی جانیں گئی ہیں ان کے لیے میرا دل رو رہا ہے۔ دہشت گردی کو کسی بھی طور پر درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کر دینے سے اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ماحول اس طرح کا ہے کہ عوامی سطح پر وہ اس طرح کی بات کہنے سے بھی گھبرا بھی رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’یہ کہتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میں وہ درد اور غصہ اندر تک محسوس کر رہا ہوں۔ اگر ان وجوہات کی بنیاد پر میری فلموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو مجھے بہت تکلیف ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ’کئی بار ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہم فنکار لوگ ہیں، برائے مہربانی ہمیں تنہا چھوڑ دیں۔ ہم فلمیں بناتے ہیں، محبت پھیلاتے ہیں۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ہمارے کام سے خوش ہیں۔ ہمیں آپ وہی کرنے دیں۔‘

انڈین فلم انڈسٹری سے وابستہ کئی نامور ہدایت کاروں اور فلم سازوں کا خیال ہے کہ پاکستانی فنکاروں کو اس طرح سے ملک سے نکالنے سے پاکستان کا نہیں بلکہ بالی وڈ کا نقصان ہوگا۔

ان کے مطابق اگر پاکستانی فنکاروں کو فلموں کے درمیان سے نکال دیں گے تو اس سے پاکستان کا تو کچھ بھی نہیں بگڑے گا بلکہ اس سے بھارتی فلمی صنعت کو نقصان ہوگا کیونکہ ان سے وابستہ کئی منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close