انٹرٹینمنٹ

موسیقار نوشاد علی کا لکھنؤ کی گلیوں سے موسیقارِ اعظم تک کا سفر

یہ بات تقریباً 90 سال پہلے کی ہے۔ لکھنؤ کے لاٹوش روڈ پر سازوں کی ایک دکان ہوا کرتی تھی ‘بھوندو اینڈ کمپنی۔’

ایک چھوٹا بچہ بار بار دکان کے چکر لگاتا، دکان کے مالک غربت علی نے اس سے پوچھا: ‘تم ان سازوں کو کیوں گھورتے رہتے ہو؟’

بچے نے جواب دیا ‘کیونکہ میں انھیں خرید نہیں سکتا۔’ اس کے ساتھ ہی بچے نے پوچھا: ’کیا میں دکان میں جھاڑو پوچھا لگانے کا کام کر سکتا ہوں؟‘

غربت علی نے بچے کو رکھ لیا۔ ایک دن جب وہ دوکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بچہ ہارمونیم پر اپنی انگلياں نچا رہا ہے، اور اس کی دھن ہر طرف پھیل رہی ہے۔

ہارمونیم بجانے میں منہمک بچے کا ہاتھ جب رکا اور نظر غربت علی پر پڑی تو وہ کانپنے لگا۔

غربت علی نے بلند آواز میں کہا: ‘تو دکان کی صاف صفائی کرنے آتا ہے یا ہمارے نئے سازوں پہ اپنے ہاتھ صاف کرنے آتا ہے؟’

بچہ یہ کہتے ہوئے معافی مانگنے لگا کہ اب آگے سے ایسا نہیں ہو گا۔’

لیکن غربت علی ہارمونیم پر بچے کی انگلیوں کا سحر سمجھ چکے تھے اور کافی متاثر ہو کر انھوں نے وہ ہارمونیم اسے مفت دے دیا۔

کبھی سازوں کی دکان میں صفائی کرنے والا وہ بچہ برسوں بعد بالی وڈ میں موسیقارِ اعظم نوشاد کے نام سے مشہور ہوا۔

بھوندو اینڈ کمپنی کو تو بند ہوئے زمانہ گزر چکا ہے لیکن جہاں بھوندو اینڈ کمپنی ہوا کرتی تھی اس کے پاس ہی سامنے سازوں کی ایک اور دکان ہے جہاں پر آپ کو آج بھی نوشاد علی کے تمام قصّے سننے کو مل سکتے ہیں۔

یہ الّن صاحب اینڈ سنز کی دوکان ہے جہاں نوشاد کی پرانی تصاویر اور ان کے لکھے ہوئے خطوط بھی موجود ہیں۔

الّن اینڈ سنز نوشاد کے ماموں کی دوکان تھی۔ الّن صاحب کے پوتے عظمت اللہ بتاتے ہیں: ’نوشاد نے موسیقی کی سمجھ بوجھ الّن صاحب کے ساتھ رہ کر پیدا کی تھی۔’

عظمت اللہ کی عمر 58 برس کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘نوشاد کا زیادہ تر وقت الّن صاحب کے آس پاس ہی گزرتا تھا۔ ان کا بچپن تو مکمل طور الّن صاحب کے گھر پر ہی گزرا۔’

دادا کے بارے میں بات کرتے ہوئے عظمت اللہ کہتے ہیں: ‘وہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ سینیما ہال میں کچھ فنکار ساز لے کر پردے کے پاس بیٹھا کرتے تھے اور فلم کے درمیان میں سین یا موڈ کے حساب سے دھن بجایا کرتے تھے۔ الّن صاحب جب رائل تھیئٹر میں ہارمونیم بجاتے تھے تو نوشاد ان کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔’

رائل سنیما کا نیا نام اب ‘مہرا تھیئٹر’ ہے۔ نوشاد جب 18-19 سال کے ہوئے تو ممبئی چلے گئے۔

لکھنؤ میں دو ہی شخص باقی رہے، عظمت اللہ کے دادا، الن صاحب اور ان کے والد نصیب اللہ اور نوشاد کے خطوط کے ذریعے ان سے رابطہ رہا۔

عظمت اللہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں: ‘والد صاحب ان کا خط پڑھ کر پھاڑ دیتے تھے، لیکن اب نوشاد اس دنیا میں نہیں ہیں تو ہمیں ان کے خطوط کی اہمیت کا پتہ چل رہا ہے۔’

وہ اپنی الماری سے کاغذوں کا ایک پلندہ نکالتے ہیں اور نوشاد کا ایک خط دکھاتے ہیں۔

یہ خط نوشاد نے اپنے لیٹرہیڈ پر لکھا تھا اور وہ اردو زبان میں ہے۔ اس پر 17 فروری 1993 کی تاریخ درج ہے۔

عظمت اللہ اپنی بھاری آواز میں خط پڑھ کے سناتے ہیں: ’آپ کی محبت بھرا خط ملا۔ پڑھ کر سب کی یاد آئی۔ پھر ایک بار بچپن آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ خدا آپ سب کو سلامت رکھے۔ ہماری نانی کا گھر سلامت رہے۔ کئی بار ایسا خیال آتا ہے کہ ایک بار تمام بچوں کے ساتھ آکر آپ کے یہاں ہی ٹھہروں اور مسجد کی چھت پر سے پھر پتنگ اڑائیں، اور نانی کی آواز سنیں: ’اے كم بختو مسجد کی چھت سے اترو، گناہ بڑھے گا۔‘ پھر تکیہ والے پیر صاحب کی مزار پر جاؤں اور ہمارے بزرگ املی کے درخت سے لپٹ کر جی بھر کر خوب روؤں۔ مجھے بڑی یادیں ستاتی ہیں۔‘

عظمت اللہ کہتے ہیں کہ نوشاد آخری بار 2002 میں لکھنؤ آئے تھے۔ اللن صاحب اینڈ سنز کی دوکان میں بھی گئے۔ کافی دور تک لاٹوش روڈ پر ٹہلے۔ پھر تھک کر دکان میں واپس آ گئے۔ اس وقت ان کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ وہ آخری موقع تھا جب نوشاد لکھنؤ آئے تھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close