لتا منگیشکر کی خواہش تھی کہ انھیں سرکاری سطح پر ریاست پاکستان کی طرف سے دعوت دی جائے
لتا منگیشکر کی خواہش تھی کہ انھیں سرکاری سطح پر ریاست پاکستان کی طرف سے دعوت دی جائے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا
سنہ 1996 میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ بیان دیا تھا کہ ’میرا دل چاہتا ہے کہ لتا منگیشکر پاکستان آئیں اور وہ لاہور میں اپنی آواز کا جادو جگائیں۔‘
نوازشریف کا یہ بیان پاکستان کے تمام اخبارات نے شہ سرخیوں میں شائع کیا۔
تب میں نے لتا منگیشکر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا مجھے یاد ہے لتا منگیشکر نے معصومیت سے بتایا تھا کہ ’مجھے پاکستان سے ابھی کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا۔‘ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے یہ ایک ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ضمن میں دیا گیا بیان تھا۔
میں نے لتا جی سے کہا کہ وزیراعظم پاکستان سمیت 18 کروڑ (اس وقت پاکستان کی آبادی) پاکستانی عوام کی طرف سے آپ کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی ہے، بتائیں کہ کیا آپ پاکستان آنا پسند کریں گی؟ لتا منگیشکر نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے پوری دنیا میں لوگ ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور آپ کا گانا بہت پسند کرتے ہیں لیکن عجب اتفاق ہے کہ میں اپنے کیریئر کے دوران پاکستان میں کبھی بھی نہ گا سکی۔‘
لتا منگیشکر نے بتایا کہ ایک مرتبہ استاد نصرت فتح علی خاں نے انھیں اپنی بیٹی ندا نصرت کی سالگرہ پر لاہور آ کر گانے کی دعوت دی تھی۔ ’استاد نصرت فتح علی خاں نے ایک مرتبہ مجھے اپنے والد استاد فتح علی خاں اور تایا استاد مبارک علی خاں کی برسی، جو وہ اپنے آبائی شہر لائل پور میں منعقد کرواتے تھے، میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی لیکن بدقسمتی سے میں پاکستان نہ جا سکی۔
وزیر اعظم پاکستان محمد نوازشریف کی طرف سے پاکستان آ کر لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے لتا منگیشکر کا کہنا تھا کہ ’مجھے اگر سرکاری سطح پر پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تو اسے بخوشی قبول کروں گی۔
یہ بھی پڑ ھیں : جب لتا منگیشکر نے کورس میں آواز دی
لتا جی نے یہ بھی کہا تھا کہ ’برصغیر کے گانے بجانے والے لاہور میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کو عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی سمجھتی ہوں اور اگر مجھے پاکستان اور پاکستانیوں نے بلایا تو ضرور آؤں گی۔‘
لیکن وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے یہ دعوت نامہ بعدازاں صرف ایک بیان ہی ثابت ہوا اور باقاعدہ طور پر لتا منگیشکر کو کوئی دعوت نامہ نہ بھیجا گیا اور لتا اپنی زندگی میں پاکستان نہ آ سکیں۔
لیکن ایسا ضرور ہوا کہ وہ اپنی طویل زندگی میں ایک مرتبہ اپنی پسندیدہ سینیئر، گرو اور بہت پیاری سہیلی ملکہ ترنم نورجہاں سے ملاقات کرنے پاکستان اور انڈیا کی سرحد واہگہ تک آئی تھیں۔
لتا منگیشکر نے بتایا کہ ’یہ سنہ 1953-54 کی بات ہے، میں اپنی ایک فلم کی تیاریوں کے سلسلہ میں امرتسر میں تھی۔ امرتسر اور لاہور میں بہت کم فاصلہ ہے، امرتسر میں مجھے ہر وقت دیدی نور جہاں یاد آتی تھیں، ٹیلیفون پر بات ہو رہی تھی، لیکن دل نہیں بھرتا تھا۔ دیدی نورجہاں کو تقسیم کے وقت دیکھا تھا اور اب دل چاہ رہا تھا کہ اپنی دیدی کو گلے لگاؤں۔‘
ایک دن یونھی امرتسر سے نورجہاں سے ٹیلی فون پر بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ میں آپ کے اتنی قریب آئی ہوں، کیوں نہ ایک دوسرے سے ملاقات کی جائے۔ نورجہاں یہ سُن کر بہت خوش ہوئیں اور انھوں نے اپنی جانب انتظامات کے لیے کہہ دیا۔ وقت اور دن طے پایا، اس جانب میں نے بھی پرمٹ کے لیے کہہ دیا۔ ان دنوں پرمٹ آسانی سے مل جاتے تھے۔‘
’پھر وہ دن آیا جب واہگہ باڈر پر میں اور نورجہاں ایک دوسرے کے گلے ملیں۔ نومین لینڈ پر ہم نے ایک دوسرے سے بہت باتیں کیں لیکن یہ وقت آنکھ جھپکتے گزر گیا، کبھی کبھار تو مجھے یہ وقت ایک زندگی سا لگتا ہے اور سوچوں تو یہ وقت ایک لمحہ بن کر زندگی سے خارج ہو گیا تھا۔ بچھڑتے وقت ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘
باڈر کے اس طرف آنے سے پہلے دیدی نورجہاں نے مجھے ایک چھوٹا سے پیکٹ دیا، انڈین بارڈر سکیورٹی نے دریافت کیا کہ نورجہاں نے مجھے پیکٹ میں چھپا کر کیا دیا ہے؟ پیکٹ کو کھولا گیا تو اس میں بریانی اور آموں کے گودے سے تیار کردہ ایک ڈش نکلی۔ دیدی کو علم تھا کہ دونوں ڈشیں میری پسندیدہ ہیں اور وہ بطور خاص میرے لیے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لائی تھیں۔